بھارتی میڈیا نے بنگلہ دیش کے سیاسی بحران کو کس طرح ’اسلام‘ سے جوڑنے کی کوشش کی
شیخ حسینہ کی طلبہ کی قیادت میں عوامی بغاوت کے بعد اقتدار سے ہٹائے جانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی کچھ بھارتی میڈیا میں یہ رپورٹیں آنا شروع ہو گئیں کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں کے ارکان کو ”اسلام پسند قوتوں“ نے نشانہ بنایا ہے۔
ہندوستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گمراہ کن مواد پر مشتمل مضامین اور ویڈیوز سامنے آئے۔
الجزیرہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ٹائمز گروپ کی ملکیت والے ’مرر ناؤ‘ کے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو جس کا عنوان تھا، ’بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملہ؟ اجتماعی قتل، ہجوم کے ذریعے قتل‘ میں چار گھروں پر تشدد اور آتش زنی کے حملوں’ کی فوٹیج دکھائے گئے جبکہ ان میں سے دو گھروں کی شناخت مسلمانوں کی ملکیت میں ہوئی ہے۔ ویڈیو کا ٹائٹل واضح طور پر گمراہ کن ہے کیونکہ اس واقعے میں اجتماعی قتل کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ مقامی رپورٹس کے مطابق ایک مکان بنگلہ دیش کے آزادی پسند رہنما شیخ مجیب الرحمان کا تھا۔
ویڈیو میں ”24 کو ہجوم نے زندہ جلا دیا“ اور ”حملوں کے اقلیتیں کا نشانہ“ جیسے غیر مصدقہ دعوے بھی کیے ہیں۔ الجزیرہ نے آزادانہ طور پر تصدیق کی ہے کہ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد سے صرف دو ہندو مارے گئے ہیں – ایک پولیس افسر اور ایک حسینہ کی عوامی لیگ کا کارکن۔
بنگلہ دیش کی 170 ملین آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہندو ہیں اور وہ روایتی طور پر عوامی لیگ کے مضبوط حامی رہے ہیں، جسے عام طور پر حزب اختلاف کے اتحاد کے مقابلے میں سیکولر سمجھا جاتا ہے، جس میں ایک اسلامی جماعت بھی شامل ہے۔
بنگلہ دیش میں معمولات زندگی متاثر، پولیس کی عدم موجودگی سے متعدد شہروں میں لوٹ مار کا خدشہ
ہندوؤں پر حملوں سے متعلق خبروں میں عجیب و غریب دعوے کیے گئے جیسا کہ ”ایک کروڑ سے زیادہ پناہ گزینوں کے جلد ہی مغربی بنگال میں داخل ہونے کا امکان ہے“، جو ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں کی گئی تھی جس میں وزیر اعظم کے ایک سینئر رہنما سویندو ادھیکاری کا حوالہ دیا گیا تھا۔
مودی حکومت کا حامی اے این آئی نیوز ایجنسی، نے بھارت میں ایک طالب علم رہنما کے حوالے سے کہا کہ بڑے پیمانے پر بغاوت ”بنگلہ دیش کے دشمنوں کی طرف سے منظم“ تھی۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایک اور بھی عجیب مضمون میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت جماعت اسلامی نے ”بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کو گرا دیا“۔
سیاسی تجزیہ کار زاہد الرحمان نے کہا کہ بھارتی میڈیا نے ”اسلامو فوبک“ لینس کے ذریعے بنگلہ دیش کی خبریں دی ہے۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ “طالب علم تحریک جس نے عوامی بغاوت کو ہوا دی، اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے اور بنگلہ دیش میں ایک مقبول تحریک ہے لیکن بھارتی میڈیا کسی نہ کسی طرح اپنی اسلامو فوبک نظروں سے پورے منظر نامے کی ترجمانی کر رہا ہے۔
کوٹہ ختم ہونے پر بھی بنگلہ دیش میں ہنگامے نہ تھمے، حکومت مخالف رجحان زور پکڑگیا
حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد بھارتی میڈیا نے الزام لگایا کہ بنگلہ دیش کے مظاہروں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے تھی کیونکہ وہ سیاسی حمایت سے بنگلہ دیش کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کچھ بھارتی ذرائع ابلاغ نے یہاں تک کہ بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ ممکنہ پناہ گزینوں کے بحران کے لیے تیاری کرے، یہ قیاس کرتے ہوئے کہ ہندوؤں کو بنگلہ دیش سے نکال دیا جائے گا۔
کچھ مبصرین اور بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس کی سوشل میڈیا پوسٹس میں بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال کے پس منظر میں آئی ایس آئی اور چین کے تعلق ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
دی اکنامک ٹائمز کے سفارتی امور کے ایڈیٹر دیپنجن آر چودھری نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ’’بنگلہ دیش کی سیاست میں جماعت اسلامی نہ تو ملک کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی بھارت کے لیے، سرحد پار دہشت گردی کو فروغ دینے کا جماعت کا ٹریک ریکارڈ حالیہ تاریخ کا حصہ ہے۔
الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہندو برادری کے رہنما گوبندرا چندر پرمانک نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق عوامی لیگ سے تعلق کے بغیر کسی ہندو گھرانے پر حملہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہندو برادری کے رہنما کے طور پرمیں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ یہ حملے سیاسی طور پر محرک تھے، فرقہ وارانہ نہیں۔‘‘ ملک بھر میں، عوامی لیگ سے وابستہ مسلم گھرانوں پر 10 گنا زیادہ حملے کیے گئے۔
بنگلہ دیش کے ڈھاکہ ٹریبیون اخبار کے ایڈیٹر ظفر سبحان نے الجزیرہ کو بتایا کہ زیادہ تر ہندوستانی میڈیا ”بنگلہ دیش کے بارے میں بے خبر ہے“۔
سیاسی تجزیہ کار فرید ارکیزیہ بخت نے کہا کہ بھارتی میڈیا کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات نئی دہلی کے ڈھاکہ کو غیر مستحکم کرنے کے ارادے کی عکاسی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان برصغیر میں اپنا سب سے قیمتی اتحادی کھو چکا ہے اور آنے والی انتظامیہ کی سمت کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا ہے۔
Comments are closed on this story.