روٹی اور کچرا بیچنے والی گولڈ میڈلسٹ ایمان خلیف کون ہے؟
پیرس اولمپکس 2024 میں ٹرانسجینڈر تنازعہ میں گھری الجزائر کی خاتون باکسر ایمان خلیف نے گولڈ میڈل اپنے نام کرکے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ خاتون باکسر کے لیے یہ اولمپک ایونٹ ہمیشہ کے لیے یاد گار بن گیا۔ انہوں نے فتح حاصل کر کے اپنے مخالفین کو بھی منہ توڑ جواب دیا۔
بی بی سی اردو کے مطابق باکسنگ کیرئیر میں آنے سے قبل ایمان خلیف ایک عام سی لڑکی تھیں۔
الجیرین باکسر ایمان خلیف نے گولڈ میڈل جیت کر ناقدین کے منہ بند کر دیے
ایمان خلیف سنہ 1990 کی دہائی کے آخر میں الجیریا کی شمال مغربی ریاست تیارت میں ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
سادہ طرز زندگی گزارنے والی ایمان کا بچپن افتادہ کے گاؤں میں گزرا جہاں وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ اینٹوں سے بنے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ ایمان جس گاؤں میں پلی بڑی وہاں لڑکیوں کا عام گھروں سے نکلنا مشکل تھا، اور نامناسب سمجھا جاتا تھا۔ صرف لڑکے میدانوں میں کھول کود کرتے تھے۔
بی بی سی کے مطابق ایمان فٹبال کھیلنے کی شوقین تھیں، وہ گاؤں کے لڑکوں کے ہمرای فٹ بال کھیلتی تھیں۔ جن لڑکوں کے ساتھ ایمان فٹ بال کھیلتی تھیں، وہ ان کی حفاظت کرتے تھے اور ایسے لوگوں سے لڑ پڑا کرتے تھے جنھیں ایمان کا لڑکوں کے ساتھ کھیلنا ناگوار لگتا تھا۔
چونکہ ایمان کا لڑکوں کے ساتھ کھیل کود میں بچپن گزرا تو ان میں بھی لڑکوں کی طرح ایک جوش تھا اور وہ جسمانی طور پر دیگر لڑکیوں سے زیادہ مضبوط تھیں۔
ایمان کھیلوں کی سرگرمیوں میں مشغول رہتی تھیں، ایک مرتبہ وہ گلی میں فٹبال کھیل رہی تھیں جہاں ایک لڑکے نے اپنے کوچ سے ایمان کا تذکورہ کیا اور بتایا کہ یہ لڑکوں کے ساتھ فٹبال کھیلتی ہے، جس کے بعد کوچ نے ایمان کے والد سے درخواست کی کہ انہیں ٹریننگ سینٹر بھیجا جائے۔
تصویر/ بی بی سی
تاہم کوچ نے ایمان کے والد کو منانے کی بہت کوشش کی، جس پر انہوں نے بہت سوچنے کے بعد ایمان کو ٹریننگ سینٹر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ٹریننگ سینٹر گھر سے 10 کلومیٹر دور تھا اور ان کے گاؤں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔
تاہم ٹریننگ سینٹر جانے کے لیے ایمان کے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہوتے تھے اور کرائے کے پیسے جمع کرنے کیلئے وہ اپنی والدہ کے ہمراہ گلیوں میں روٹی اور کوسکوس (گندم کی ایک قسم) فروخت کرنے پر مجبور تھیں۔ ایمان کی پھوپھو کا ان کے کیرئیر میں بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایمان اپنی ٹریننگ کسی وجہ سے مکمل نہ کرسکیں اور دیگر مسائل بھی ان کے سامنے تھے تب ان کی پھوپھو انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئیں۔
بی بی سی کے مطابق جب ایمان اپنی پھوپھی کے گھر رہنے گئیں تو ان کے پاس ایک دینار بھی نہ تھا۔ اپنا خرچہ اٹھانے کے لیے وہ تانبے کا ’سکریپ‘ یعنی کچرا بیچتی تھیں۔ تاہم ان کے ارد گرد لوگوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ ایمان کے پھوپھا اور ان کے کزنز انھیں تربیتی سینٹر لے کر جاتے تھے۔
تصویر/ بی بی سی اردو
بعد ازاں ایمان خلیف نے ٹریننگ سینٹر میں بھرپور محنت کی اور 19 برس کی عمر میں 2018 میں ’ویمنز ورلڈ چیمپیئن شپ‘ میں حصہ لیا جس میں وہ پہلے راؤنڈ میں باہر ہو گئی تھیں۔ تاہم انھوں نے 17ویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ پھر 2019 کے بعد ایمان خلیف کامیابیاں سمیٹتی گئیں
ایمان خلیف کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن وہ گھبرائی نہیں۔ آج ایمان خلیف اپنے ملک میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کی قومی سفیر ہیں۔
Comments are closed on this story.