ارشد ندیم کرکٹ کی راہداریوں سے گزر کر جیولین تک کیسے پہنچے؟
ارشد ندیم اس وقت ملک کے سب سے بڑے اعزاز یافتہ ایتھلیٹ ہیں، جنہوں نے کسی بھی ٹریک مقابلوں میں ملک کا پہلا اورواحد اولمپک گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔
ارشد ندیم نے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے سخت محنت اور پریکٹس کی ہے ۔ وسائل کی کمی کو اپنے مقصد کی راہ میں حائل نہ کرنے والے اس عظیم کھلاڑی کے پاس کوئی سپورٹ نہیں تھی اور انہوں نے اکیلے ہی پاکستان کا نام روشن کیا۔
اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کو کتنی انعامی رقم ملے گی؟
پاکستانی ایتھلیٹ نے گولڈ میڈل جیتنے کے بعد بین الاقوامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ اپنے سفر کو شیئر کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ کرکٹر بننا چاہتے تھے اور وہ فاسٹ بولر کی حیثیت سے کھیلتے تھے۔ مگروسائل کی کمی اور سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے جاری نہ رکھ سکے اور بعد میں فٹ بال، کبڈی اور دیگر ایتھلیٹکس کھیلنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد انہوں نے جیولین تھرو میں طبع آزمائی کی اور وہ اس کھیل میں ورلڈ نمبر ون بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ایک چھوٹۓ سے گاؤں سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے ورلڈ نمبرون بننے والے ارشد ندیم نوجوانوں کے لیے ایک تحریک ہیں، جس طرح انہوں نے کم رسائل کے ساتھ بلند حوصلے اور عزم و ارادے سےاپنی کامیابی کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ اور بالآخر اپنی منزل کو پالیا۔
واضح رہے پیرس اولمپکس 2024 میں پاکستان نے 40 سال بعد گولڈ میڈل حاصل کیا ہے، پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم نے اولمپکس میں جیولن تھرو کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔
جیولن تھرو کے چھٹے راؤنڈ میں پاکستان کے ارشد ندیم نے مقابلے میں دوسری بہترین تھرو کرتے ہوئے نیزہ 91.79 میٹرز دور پھینک کر اولمپک کی دوسری بہترین تھرو کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔
Comments are closed on this story.