بنگلہ دیش میں جس کوٹے پر احتجاج شروع ہوا وہ عدالت نے بحال کیا تھا، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ایک ادارہ پارلیمنٹ میں بار بار مداخلت کرتا ہے، ایسا سیاسی فیصلہ دیا گیا جس کی آئین میں گنجائش نہیں، سیٹیں ٹافیوں کی طرح بانٹی گئیں، دنیا کی کوئی جوڈیشری ہماری جوڈیشری کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اداروں کے درمیان فاصلہ نظر آرہا ہے، اپوزیشن لیڈر بتائیں کیا میں نے آپکا بلا چھینا تھا، بنگلہ دیش میں جس کوٹے پر احتجاج شروع ہوا وہ عدالت نے بحال کیا تھا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پوری قوم ان کی جیت کو سراہتی ہے اور فخر کرتی ہے، میں پوری قوم اور ایوان کی طرف سے ارشد ندیم کو مبارکباد دیتا ہوں، انہوں نے اپنی محنت کے نتیجے میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا، ارشد ندیم اولمپکس میں ریکارڈ توڑ کر پاکستان کے لیے گولڈ میڈل لارہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم کھلاڑیوں کا ساتھ دیں تو ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں، یہ ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوان کو موقع دیا جاتا ہے تو وہ فتحیاب ہوکر آتے ہیں، ہمیں ان پر فخر ہے، ایتھلیٹس کی اسپانسر شپ وغیر ہ کے حوالے سے ہماری متفق رائے ہونی چاہیئے، ہمیں پاکستان بھر میں صلاحیت رکھنے والے بچوں کا ساتھ دینا چاہیئے، لیاری کا ایک ایک بچہ فیفا کا ورلڈ کپ جیت سکتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کھلاڑیوں کا ساتھ نہیں دیتیں، وفاقی وزیرکھیل سے فنڈز مختص کرنے کی اپیل ہے، ہمارے نوجوانوں میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، آئندہ اولمپکس میں ہر صوبے کا ارشد ندیم گولڈ میڈل جیتے گا۔
انہوں نے کہا کہ اللہ نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے، اسلام آباد شہر بنا ہی عوام کی خدمت کے لیے ہے، اسلام آباد شہر کو وفاقی درالحکومت بنایا گیا، ہم جلس کام کے لیے اسلام آباد آتے ہیں وہ نہیں کرتے، اسلام آباد آکر ہم سازشیں شروع کردیتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ایک دو مسائل پر بات کرنا ضروری ہے، پاکستان میں جتنی نوجوانوں میں صلاحیت ہے، لیبرز میں جتنی صلاحیت ہے، یہاں بہت مواقع ہیں، ہمارے پاس پہاڑوں سے سہائے تک سب کچھ ہے مگر اس ملک کی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ یہ جو شہر اسلام آباد بنا یہ شہر بنا اس لیے کہ ہمیں اسے کیپیٹل بنانا تھا اور یہاں بیٹھ کے ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے تھے، یہ بڑے بڑے ادارے، عمارتیں، اس شہر میں بیوروکریسی، سب سیاستدان موجود ہیں مگر جس کام کے لیےہم یہاں آتے ہیں وہ پورا نہیں کرتے، ہم سازشیں شروع کردیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج کل جو ملک میں چل رہا ہے، جیسی تقسیم سیاست میں موجود ہے وہ تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے جو عوام معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، ان کی مدد نہیں کر پارہے، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ملک کے چاروں کونے میں مشکل ہوتی جارہی مگر ہم ایوان میں متفق رائے بھی نہیں بنا سکتے، دن رات ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں، ہم ایک دوسرے کو چور غدار کہہ رہے ہیں، ہمیں کوئی طریقہ نکالنا پڑے گا کہ لڑائیاں لڑیں مگر سیاست کے دائرے میں رہ کر۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی کارکن بنگلہ دیش کے حالات غور سے دیکھ رہے ہیں، احتجاج وہاں فوج میں شہید ہونے والوں کے کوٹے کے اوپر شروع ہوا، اس کوٹے کو 2018 میں حسینہ واجد نے خود ختم کیا اور ان کی عدالت نے اسے بحال کیا اور احتجاج شروع ہوگیا اور وہ رک نہ سکا اور سب نے دیکھا کہ کیسے حسینہ واجد کو اس وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا، اس کو دیکھ کر سب کو سوچنا چاہیے کہ ہمیں عوامی مسائل کو ترجیح دینی چاہیئے۔
مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا پڑے گا، بلاول بھٹو
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دنیا کی کوئی جوڈیشری ہماری جوڈیشری کا مقابلہ نہیں کرسکتی، ہماری عدلیہ ڈیم بنانے اور ٹماٹر کے نرخ بھی طے کرتی ہے، ایک ادارہ پارلیمنٹ میں بار بار مداخلت کرتا ہے، اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیئے، عدلیہ نے ہمیں آخر کار ذوالفقار بھٹو کیس میں انصاف دیا، کیا میں نے بانی پی ٹی آئی سے بلا چھینا تھا، کیا میں نے پارٹی انتخابات کو غلط قرار دیا تھا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے شور شرابا شروع کیا تو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اپوزیشن اراکین کو خاموشی سے بات سننے کی ہدایت کردی۔
جس کے بعد بلاول بھٹو نے دوبارہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ان سے بلے کا نشان چھینا ہے، عدالتی فیصلے نے مری ہوئی جماعت کو فائدہ دیا، انہوں نے مانگا ہی نہیں اور عدالت نے ریلیف دے دیا، ان کو مخصوص نشستیں ٹوفیوں کی طرح دے دی گئیں۔
بلاول بھٹو کے مطابق پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں، اس وقت کو بحران ہے ادارے کے درمیان ایک فاصلہ نظر آرہا ہے اور یہ اس لیے بن رہا ہے کہ ایک ادارہ اس ادارے میں بار بار مداخلت کرتا ہے، عدلیہ کی تاریخ تو پورے ملک کے سامنے ہے، ارشد ندیم کی طرح عدلیہ نے بھی ورلڈ ریکارڈز توڑے ہیں، عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ نا صرف عدالت چلاتے ہیں بلکہ وہ تو ڈیم بھی بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدالتیں اتنی کامیاب ہیں کہ وہ انصاف بھی دلواتی ہیں، ڈیم بھی دلاتی ہیں اور مہنگائی کا مقابلہ بھی کرتی ہے، عدلیہ ہماری اتنی زبردست ہے، پوری دنیا میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، ہمارے پاس اتنے بڑے سانحات ہوئے ہیں، بینظیر بھتو، ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، پاکستانیوں کی اپنی شکایتیں انصاف کی منتظر ہیں، ہمیں 3 دہائی تک انصاف کا انتظار کرنا پڑا پر آخر عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس حد تک انصاف دیا کہ ہاں ان کو صحیح انصاف نہیں دیا گیا اور ساتھ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے ہم تاریخ کو درست کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے۔
Comments are closed on this story.