اچار کے شوقین ہوشیار، ڈاکٹر اسے کینسر کی ایک بڑی وجہ بتارہے ہیں
اچار، ایشائی دستر خوانون کی زینت اچار برسہا برس سے ہماری روایات کا حصہ رہے ہیں ۔ چٹخارے داراچار نہ صرف ہمارے منہ کے ذائقوں کو بڑھاتے ہیں، بلکہ بھوک میں بھی اضافہ کی حیثیت سے بھی مانے جاتے ہیں۔ اکثر اچاروں کو تیارکر کے اسے سال بھر کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ یہ مختلف سبزیوں سےبنائے جاتے ہیں۔
اچار بنا کر اسے محفوظ رکھنے کی روایت ہماری نانی دادیوں کے زمانے سے چلی آرہی ہے، جو آج تک جاری ہے اور یہ مشہورہے کہ اچار جتنا زیادہ پرانا ہو گا ،وہ ذائقے میں اتنا ہی لذیذ ہوتا جائے گا۔
دنیا کی لذیذ ترین ڈش جسے کھا کر سالانہ 20 ہزار لوگ مرجاتے ہیں
اگر آپ بھی اچار کو ذخیرہ کر کے اسے اسے اسٹور کر لیتی ہیں تو اپ کو ڈاکٹر کی یہ بات سن کر حیرت ہوگی کہ اچار پرانا ہونے سے اس کا ذائقہ تو لاجواب ہو جاتا ہے ، مگر یہ آپ کی صحت کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر انہیں زیادہ عرصے تک کھایا جانے تو انسان میں کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق کینسر کے کیسز ایسے خاندانوں میں زیادہ دیکھے گئے ہیں، جہاں اچار بہت زیادہ کھایا جاتا ہے۔
کینسر امیونو تھراپسٹس کا ماننا ہے کہ اچار جتنا پرانا ہوتا ہے ، اتنے ہی اس میں فری رریڈیکلز پیدا ہونے لگتے ہیں۔اس میں ایسے مصالحہ شامل کیے جاتے ہیں ،جس سے وہ گل جاتا ہے۔ اور اگر ایسے اچاروں کو بہت زیادہ عرصے تک محفوظ کر لیا جائے تو اسمیں فری ریڈیکلز بہت زیادہ مقدار میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔
ایشیائی افراد میں اچار کھانے کے جنون کو دیکھتے ہوئےڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ اگر اپ اچار کے شوقین ہیں تو اپ کو چاہیے کہ انہیں زیادہ عرصے تک محفوظ نہ رکھیں۔
اس ضمن میں دو اقسام کے اچار کا ذکرکرتے ہیں۔ ایک اچار وہ ہوتے ہیں ،جو ایک یا دو دن کے لیے تازہ تازہ بناتے جا تے ہیں ۔ ایسے اچار کھانے کے لیے بالکل محفوظ ہوتے ہیں۔ تاہم انہیں بھی کبھی کبھار کھانے چاہیے۔
اچار کو اپنی روزمرہ ڈشز کا حصہ نہ بنائیں اور سال بھر پرانا اچار نہ ہی کھایا جائے تو بہتر ہے۔ اسے ایسے موسم میں کھانا چاہیے، جس میں انہیں تیار کیا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.