Aaj News

جمعہ, ستمبر 20, 2024  
15 Rabi ul Awal 1446  

وفاق آگ میں ایندھن ڈالنے کے بجائے بنوں کے حالات کو پرسکون کرئے، بیرسٹر سیف

590 ارب سی ٹی ڈی بنانے کے لیے نہیں بلکہ سوات میں 2009 کے آپریشن کے بعد تعمیر نو کے لیے دی گئی تھی ، مشیر اطلاعات کے پی
شائع 23 جولائ 2024 11:57pm

بارڈر سیکیورٹی کے پی کی نہیں وفاق کی ذمہ داری ہے، وفاقی حکومت کے پی حکومت سے تعاون نہیں کررہی ہے بیرسٹر سیف کی گفتگو کہا کہ 590 ارب سی ٹی ڈی بنانے کے لیے نہیں بلکہ سوات میں 2009 کے آپریشن کے بعد تعمیر نو کے لیے دی گئی تھی مریم نواز ٹک ٹاکر وزیراعلی ہیں وہ مریم نواز 10 لاکھ کے کپڑے پہن کر فیشن شو کرتی ہیں1 پٹاخہ بھی پھٹا تو مریم نواز لندن میں ہوں گی۔

آج نیوز کے پروگرام ’ نیوز انسائیڈ’ میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ پولیس امن و امان کے لیے اپنا کام کر رہی ہے اور اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعے کا خمیازہ کے پی کے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے کئی جوان شہید اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک امن و امان ہے اور دوسرا قومی سلامتی ہے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

انھوں نے کہا کہ اور وفاقی حکومت کے بغیر صوبہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ہم نے سی ٹی ڈی کو تیار کیا ہے اور ان کے لیے نئے آلات اور اہلکاروں کو بڑھانے کے لیے 7 ارب روپے رکھے ہیں۔ وفاقی حکومت کا بنیادی کردار ہے، آپ کو وسائل اور تکنیکی مدد کی ضرورت ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن، غیر قانونی اسپیکٹرم، سائبر کرائم، ہنڈی اور حوالات، غیر رجسٹرڈ کار، یہ دہشت گردی میں استعمال ہوتی ہیں۔ منشیات، ان سب کا آپس میں رشتہ ہے۔ یہ وفاقی حکومت کے ڈومین میں آتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ دہشتگردی کو لے کر جس طرح کی شدت آرہی ہے وفاق کو ہماری مدد کرنی چاہیے وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں ۔

مشیر اطلاعات نے کے پی کے کہا کہ وفاقی حکومت کے پی حکومت سے تعاون نہیں کررہی ہے سوشل میڈیا پر دہشت گردی کا مواد ہے جس کی زمے دار ایف آئی اے ہے۔ سرحد یا غیر قانونی کاروں سے دہشت گردی مرکز کی سرحد پر سیکیورٹی ہے۔ میں کہوں گا کہ فوج اپنا فرض ادا کر رہی ہے۔ اس کا ایک وسیع میدان ہے اور 80 فیصد ڈیوٹی وفاقی حکومت کی ہے۔ جو کہ حکومت پورا نہیں کر رہی ہے ۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے وفاقی حکومت کے ذمہ دار وزیر اعظم اور وزیر دفاع جب بھی دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو سیاست نہیں کرتے بلکہ ٹھوس بات کرتے ہیں اور جو سب کے لیے ہے۔ صوبے کے لیے نہیں۔ کہا گیا کہ ہمیں سی ٹی ڈی بنانے کے لیے 590 ارب روپے دیے گئے۔ یہ حقیقت میں غلط ہے اور ہمیں کچھ نہیں دیا گیا۔ یہ رقم سوات میں 2009 کے آپریشن کے بعد تعمیر نو کے لیے دی گئی تھی۔ جب پی ایم غلط کہہ رہا ہے تو اس کا مرکز کو براہ راست فائدہ ہے۔ اگر ہمیں ہمارے وسائل دیے جائیں تو ہم دفاع، امن و امان کے اداروں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ہمیں پولیس کو ترقی دینا ہے ۔

وزیراعلیٰ کے پی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا ایسا موازنہ غلط ہے کے پی کے وزیراعلیٰ سرکردہ پوزیشن میں ہیں ، بنوں کا احتجاج دیکھ رہے ہیں اور مظاہرین سے براہ راست رابطہ کر رہے ہیں۔ ہم نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی درخواست کی ہےوزیر اعلی بنوں جا رہے ہیں اور وہ امن کمیٹی کے کہنے پر جا رہے ہیں۔ ہمارے اعلیٰ سطحی ذمہ داروں کو وہاں بھیجا گیا۔ ہمارے وزیر اور ایم این اے وہاں موجود تھے۔ موازنہ غلط ہے۔

مریم نواز کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ مریم نواز ٹک ٹاکر وزیراعلی ہیں مریم نواز 10 لاکھ کے کپڑے پہن کر فیشن شو کرتی ہیں، پٹاخہ بھی پھٹا تو مریم نواز لندن میں ہوں گی۔

بنوں امن کمیٹی پر بات کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ ان کے اپنے مطالبات اور آپریشن سے متعلق مسائل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلح افواج کے جوانوں کے بجائے پولیس انہیں سنبھالے۔ پولیس فرنٹ لائن پر آگئی۔ گھر کی تلاشی لینا یا اوپریٹونی این سول کرنا ہو سکتا ہے کہ بنوں کے لوگ فوج کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، وہ مقامی پولیس کے ساتھ خود کو محفوط سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ امریکا کے جانے کے بعد دہشتگردوں کےپاس جدید اسلحہ آگیا ہے۔

بنوں کے امن کو خراب کرنے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ مرکز کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آگ میں ایندھن ڈالنے کے بجائے انہیں حالات کو پرسکون کرنا چاہئے۔ ایسے بیانات لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ہم کے پی میں ہیں، ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ کے پی حکومت چوکنا ہے۔ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور ہمارے باقی فنڈز جاری کریں تاکہ ہم اپنے صوبے کی ترقی پر سرمایہ کاری کر سکیں۔ مایوسی ختم ہونی چاہیے۔ اور لوگوں کو روزگار ملے۔

Bannu

barrister saif