Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

12 جولائی کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، چیف جسٹس

نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا ہوا، جسٹس منصور، جسٹس منیب
اپ ڈیٹ 20 جولائ 2024 08:07pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

سپریم کورٹ میں کیسز سماعت کرنے والی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے منٹ ہفتہ کے روز سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردیئے گئے جن سے انکشاف ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کی پرزور سفارش کی تھی تاہم کمیٹی کے دیگر دو اراکین جسٹس منصور اور جسٹس منیب اختر نہیں مانے۔ چیف جسٹس نے یہ تک کہا کہ اگر درخواستیں فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر نہ ہوئیں تو یہ غیرمنصفانہ ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا ہوا۔

کمیٹی کا 17واں اجلاس 18 جولائی کو ہوا تھا۔ جس میں نظرثانی درخواستیں سپریم کورٹ کی چھٹیوں کے بعد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے کمیٹی اجلاس کے منٹس جاری کر دیے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 13رکنی بینچ کے 8 ججوں نے 15 دن میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم سنایا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت اور دیگر کی طرف سے نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے کمیٹی اجلاس کے منٹس کے مطابق کمیٹی کے تین اراکین میں سے دو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منصور اختر کا کہنا تھا کہ 12 جولائی کا مخصوص نشستوں پر جو حکم سنایا گیا اس کیس کا تفصیلی فیصلہ ابھی جاری نہیں ہوا۔

جسٹس منصور اور جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ہی نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی جا سکتی ہیں۔

تایم اجلاس کے آغاز پر رجسٹرار کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر نظرثانی کا فیصلہ نہ ہوا تو یہ معاملہ غیرموثر ہو جائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم میں 15 دن کی ڈیڈلائن مقرر کی گئی ہے۔

جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے یہ بھی کہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث ججز دستیاب نہیں۔

مخصوص نشستوں پر نظرثانی درخواست، ن لیگ کو نمبر الاٹ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نظرثانی کا حق آئین نے دیا ہے، ججز کے آرام اور آسانی کو نہیں آئین کو ترجیح دینی چاہیے، فوری طور پر نظرثانی کو سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا تو یہ نا انصافی ہو گی، نظر ثانی کیلئے ضروری ہو تو چھٹیاں بھی منسوخ ہونی چاہئیں۔

لیکن کمیٹی کے رکن دیگر دو اراکین کا کہنا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ملتوی تو ہو سکتی ہیں لیکن ایک بار اعلان کے بعد چھٹیاں منسوخ نہیں کی جاسکتیں، ماسوائے اس کے کہ فل کورٹ بلا کر قواعد میں ترمیم کی جائے۔

سپریم کورٹ کی گرمیوں کی چھٹیاں ستمبر تک ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے تاہم الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانونی ونگ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے مزید رہنمائی لے سکتا ہے۔

یاد رہے کہ 12 جولائی کے فیصلے میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کی تقسیم کے معاملے پر مزید رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔

Supreme Court of Pakistan

Pakistan Tehreek Insaf (PTI)

Chief Justice Qazi Faez Isa

Reserved Seats Verdict