بنگلہ دیش بھر میں کرفیو نافذ، فوج طلب، مواصلاتی رابطے منقطع
بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ جمعہ کے روز فسادات میں شدت انے کے بعد حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے اور فوج طلب کر لی ہے انتظامیہ نے کئی جگہ موبائل فون سروس بھی بند کر دی ہے اور ٹیلی کمونیکیشن رابطے ہو گئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے نجی ٹی وی چینل جمعہ کو پہلے ہی آف ایئر کر دیے گئے۔
خبررساں ادارے اے ایف پیکے مطابق تین دن کے ہنگاموں میں 105 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں 100 سے زائد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ کم از کم تین افراد جمعہ کو ہلاک ہوئے۔
بدھ کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کے سرکاری ٹی وی کی جس عمارت کے اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر قوم سے خطاب کیا تھا اُسے بھی طلبہ نے آگ لگادی۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے سرکاری ٹی کی نشریات رُکی ہوئی ہیں۔ سرکاری ٹی وی کی عمارت کے احاطے میں کھڑی ہوئی درجنوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی مظاہرین نے آگ لگادی۔
بعد میں نجی ٹی وی چینل بھی آف ایئر کر دیے گئے۔
سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف قوانین میں ترامیم کا مطالبہ کرنے والے طلبہ اور پولیس کے درکنار درجنوں جھڑپیں ہوچکی ہیں۔
ہیکرز کی جانب سے مرکزی بینک اور وزیراعظم افس کی ویب سائٹوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستانی طلبہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہاسٹل میں اپنے کمروں میں رہیں۔
بنگلہ دیش کی صورتحال کا تعلق پاکستان اور 1971 کی جنگ سے بھی ہے۔ 1971 میں پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے والے بنگلہ دیشیوں یعنی مکتی باہنی کے اراکین کے لواحقین کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوٹا مقرر ہے۔ تا ہم اس کوٹے کے سبب دیگر لوگوں کے لیے ملازمتیں نہیں بچتی اور اسی بات کے خلاف بنگلہ دیش میں احتجاج شروع ہوا جس پر عوامی لیگ کے حامی طلبہ نے احتجاج کرنے والوں پر حملے کیے اور تصادم شروع ہو گیا۔
وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد نے احتجاج کرنے والے طلبہ سے کہا ہے کہ حکومت کوٹہ سسٹم کی بحالی کا ارادہ نہیں رکھتی اس لیے احتجاج ترک کیا جائے، امن بحال کیا جائے۔
واضح رہے کہ 1971 میں پاکستانی فوج سے لڑائی کے دوران مارے جانے والوں کی اولاد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ 1972 میں اُس وقت کے وزیرِاعظم اور پاکستان سے علیٰحدگی کی تحریک کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے نافذ کیا تھا۔
یہ کوٹہ شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد نے 2018 میں ختم کردیا تھا۔ 2021 میں اس کوٹے کو بحال کرانے کے لیے کئی افراد نے ڈھاکہ ہائی کورٹ سے سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے یکم جولائی 2024 کو یہ کوٹہ بحال کیا تھا تاہم اٹارنی جنرل نے جب سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو فاضل عدلت نے کوٹے کی بحالی کے حکم پر حکمِ امتناع جاری کردیا۔
طلبہ تحریک کی بنیاد یہ بات تھی کہ سرکاری ملازمتوں میں 56 فیصد تو کوٹہ رہا ہے۔ صرف 44 فیصد ملازمتیں میرٹ کے تحت دی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہر سال کم و بیش 4 لاکھ نوجوان گریجویشن کے مرحلے سے گزرتے ہیں جبکہ اُن کے لیے صرف 3 ہزار ملازمتیں اوپن میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی طلبہ تحریک کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع کی جانے والی تحریک اب بظاہر حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو رہی ہے۔ شیخ حسینہ واجد جنوری 2024 میں مسلسل چوتھی بار وزیرِاعظم منتخب ہوئی تھیں۔ غیر جانب دار مبصرین اور سیاسی جماعتوں کا الزام رہا ہے کہ عوامی لیگ نے بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے مسلسل چوتھی بار اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ممکن بنائی ہے۔
بین الاقوامی اداروں نے بھی شیخ حسینہ واجد پر دباؤ بڑھادیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو احتجاجی طلبہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ معاملات کو درست کرنے کی کوئی سبیل نکلے۔ شیخ حسینہ واجد کا کہنا ہے کہ طلبہ سے اُسی وقت بات ہوسکتی ہے جب وہ احتجاج ترک کریں اور عدالتی نظام پر اپنا اعتماد ظاہر کریں۔
Comments are closed on this story.