کیا ماضی میں پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی ہے؟
وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا ہے، جس کے بعد ملکی سیاسی حلقوں میں بھونچال آگیا ہے، اتحادیوں نے اعتماد میں نہ لئے جانے کا شکوہ کیا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی تیر و نشتر تیار کر لئے ہیں۔
لیکن اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جاتی ہے تو کیا یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوگا؟
سنہ 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے تحریکِ لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔ تاہم صرف چار ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت جماعت پر عائد پابندی ہٹا دی تھی۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کی گئی تھی، ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی ایسی ہی پابندی کی زد میں آئی تھی۔
صرف یہی نہیں بلکہ یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیخ مجیب کا عدم تعاون تحریک کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ مئی 2020 میں وزارت داخلہ نے جئے سندھ قومی محاذ اریسر کو ایک کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی۔ جسقم سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے بہت مشہور تھی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’یہ ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت متعدد سیاستدانوں کو بھی نااہل قرار دیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے اثرات کبھی ملک پر اچھے نہیں پڑے۔‘
ماضی میں متعدد بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی متعدد تنظیمیں نئے ناموں سے سامنے آ جاتی ہیں۔
سیاسی محقق محمد فیصل کہتے ہیں کہ ’اگر مان لیا جائے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگ جاتی ہے تو وہ نئے نام سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے، ایسی مثالیں ہمیں تاریخ میں ملتی ہیں۔‘
پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے سے اتحادیوں کا اظہار لاعلمی، پیپلز پارٹی کی مخالفت
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں تمام فریقین رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ ’ہر فریق سیاسی اور غیر سیاسی اپنی سبقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے پیچھے ارادہ جماعت پر دباؤ بڑھانا اور انھیں اُکسانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت چلانے والوں نے سیاسی طور پر جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ بیانیہ بنانے کے محاذ پر بھی پی ٹی آئی کو پیچھے دھکیلا جا سکے‘۔
Comments are closed on this story.