آسٹریلوی کمپنی نے خلائی ٹیکنالوجی سے ریکوڈک ذخائر کا زیرِزمین نقشہ بنالیا
بیرک گولڈ نے فلیٹ اسپیس ٹیکنالوجی کی مدد سے ریکوڈک ذخائر کا زیرِ زمین نقشہ تیار کرلیا۔ نقشے کی تیاری کا بنیادی مقصد ریکوڈک ذخائر سے معدنیات نکالنے کے عمل کو تیز اور موثر بنانا ہے۔
بیرک گولڈ نے آسٹریلیا کی ایک کلیدی اسپیس ایکسپلوریشن کمپنی کے وضع کردہ حل کو بروئے کار لاتے ہوئے معدنیات کی کھدائی کے لیے ایگزوسفیئر سے استفادہ شروع کیا ہے۔ پی آر نیوز وائر کے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق بیرک گولڈ خلائی ٹیکنالوجی کی مدد سے زیادہ معدنیات تیزی سے نکال سکے گی۔
خلائی تحقیق میں ممکن بنائی جانے والی پیش رفت، مصنوعی ذہانت اور تھری ڈی ملٹی فزکس کے ذریعے وضع کردہ ایگزوسفیئر کی مدد سے تھری ڈی زیرِ زمین نقشہ تیار کیا جارہا ہے تاکہ پانی کی سطح، تانبے کے ذخائر اور دیگر چیزوں کی درست نشاندہی ہوسکے۔ ڈیکوڈک بلوچستان میں 1150 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا منصوبہ ہے۔
فلیٹ اسپیس ٹیکنالوجیز کی شریک بانی اور سی ای او فلاویا ٹاٹا ناردینی کا کہنا ہے کہ معدنیات کی تلاش اور اُنہیں نکالنے کے حوالے سے بیرک گولڈ اور فلیٹ اسپیس کے درمیان اشتراکِ عمل جاری ہے۔ خلائی تحقیق کے حوالے سے پیش رفت، مصنوعی ذہانت اور تھری ڈی ملٹی فزکس کے ذریعے ہم مستقبل کی ماحول دوست توانائی کے لیے مطلوب تانبے کی طویل البنیاد اور پائیدار رسد یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے اقوامِ متحدہ کے ’سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ گولز‘ سے بھی اشتراکِ عمل جاری ہے۔
فلاویا ناردینی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں بیرک گولڈ اے ایس جی مقاصد کے لیے ایگزوسفیئر کو بروئے کار لانے پر فخر ہے۔ ریکوڈک پروجیکٹ میں ورلڈ کلاس آپریشن ہو رہا ہے۔ ریکوڈک بیرک گولڈ کے کاپر پورٹ فولیو کا ایک اہم اسٹریٹجک حصہ ہے اور اس کا شمار تانبے اور سونے کے سب سے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے۔
یہ علاقہ بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ یہاں مختلف معیارات کے تانبے اور گولڈ کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ریکوڈک سے پیداوار 2028 میں شروع ہوگی۔ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہوں گے، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی ہوگی اور علاقائی سطح پر غیر معمولی ترقی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
ایگزوسفیئر کا ڈھانچا معدنیات کی تلاش اور پیداوار کے لحاظ سے بہترین نتائج یقینی بناتا ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی کی مدد سے بہترین سینسرز کے ذریعے درست ترین ڈیٹا کا حصول بھی ممکن ہو پاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی جانے والی پیداوار ماحول کے لیے منفی اثرات سے بھی پاک ہوگی۔ یہ ٹیکنالوجی سائٹ پر کام کرنے والی ٹیموں کے لیے بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ مطلوب ڈیٹا بروقت فراہم ہونے سے فیصلہ سازی میں بھی مدد ملتی ہے اور ماحول کے لیے نقصان کم از کم سطح پر رکھنا بھی ممکن ہو پاتا ہے۔
ایگزوسفیئر کی جدت طرازی اور پائیداری کا اعتراف حال ہی میں بینکزیا فاؤنڈیشن کے 35 ویں نیشنل سسٹینیبلٹی ایوارڈز میں بھی کیا گیا جہاں اِس نے 2024 کے لیے دی کلائمیٹ ٹیکنالوجی امپیکٹ ایوارڈ جیتا۔ ایگزوسفیئر نے ایک سال کے دوران غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس میں پانچ کروڑ ڈالر کی سیریز سی فنڈنگ بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں اس کی مجموعی مالیت 35 کروڑ ڈالر ہوچکی ہے۔ ایگزوسفیئر 2026 میں چاند پر بھی مشن بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
فلیٹ اسپیس ٹیکنالوجیز خلائی تحقیق کی ایک کلیدی آسٹریلوی کمپنی ہے۔ اس کا صدر دفتر ایڈیلیڈ میں آسٹریلیا کی اسپیس انڈسٹری کے نیشنل سینٹر میں واقع ہے۔ یہ ادارہ امریکا، کینیڈا، چلی اور لگزمبرگ میں کام کر رہا ہے۔ 2023 میں فلیٹ اسپیس کو آسٹریلین فائنانشل ریویو نے ملک کی سب سے زیادہ تیزی سے پروان چڑھنے والی کمپنی قرار دیا تھا۔
Comments are closed on this story.