آئی ایم ایف نے نئے قرضے کیلئے ساورن ویلتھ فنڈ ختم کرنے کی شرط رکھ دی
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے نئے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری کے لیے پاکستان خود ساورن ویلتھ فنڈ (پی ایس ڈبلیو ایف) کو ختم کرنے کی ٓشرط رکھ دی ہے اور اس حوالے سے ستمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کردی ہے۔
پی ایس ڈبلیو ایف کا مقصد ملک کے 7 منافع بخش ریاستی اداروں کے مالی معاملات میں شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنانا ہے۔
پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے قانون کے تحت حکومت نے ریاستی ملکیت کے انتہائی منافع بخش اداروں کی ملکیت اور اثاثے پی ایس ڈبلیو ایف کو منتقل کردیے تھے۔ اطلاعات کے مطابق قانون سازی کا مسودہ تیار کرنے میں ابوظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی نے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ اب آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ کی راہ میں ایک بڑی دیوار بنا ہوا ہے۔
باخبر و باوثوق ذرائع نے بتایا کہ پیر کو آئی ایم ایف کے مشن فیف نیتھن پورٹر اور وزارتِ خزانہ کے حکام کی میٹنگ غیر نتیجہ خیز رہی۔ آئی ایم ایف مشن چیف مُصِر رہے کہ فنڈ کو ختم کردیا جائے۔
انگریزی اخبار ٹریببون کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر وزارتِ خزانہ کے سیکریٹری قمر عباسی نے کچھ کہنے سے گریز کیا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ پاکستان کے پاس اس فنڈ میں لگانے کے لیے سرمایہ نہیں اور یہ کہ حکومت اپنے اسٹریٹجک اثاثوں پر کنٹرول سے بھی محروم ہو جائے گی۔
آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اسٹریٹجک اثاثون کو غیر شفاف طریقے سے فروخت کرنے کے بجائے نجکاری کے قانون کو مزید طاقتور بنائے۔
پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ نجکاری کا موجودہ میکینزم پیچیدہ اور غیر موثر ہے تاہم یہ موقف آئی ایم ایف نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف سے کوئی ڈٰیل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب بھی اب تک آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے حوالے سے ڈیڈ لائن دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ساورن ویلتھ فنڈ کیا ہے
دنیا کے کئی ممالک میں ریاستیں ساورن ویلتھ فنڈ قائم کرتی ہیں۔ ساورن کا مطلب ہے خود مختار۔ ایسے فنڈز کو ریاست کی ضمانت حاصل ہوتی ہے۔
ساورن فنڈ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اکثر زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا ساورن ویلتھ فنڈ بھی بہت سے قوانین سے مسثنیٰ ہے۔ نجکاری اور پبلک پروکیورمنٹ کے قوانین کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔
Comments are closed on this story.