امریکی صدر نے دماغی معائنہ خارج از امکان قرار دے دیا
امریکا کے صدر جوزف بائیڈن نے دماغی معائنے کا خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں جسمانی اور ذہنی طور پر بالکل فِٹ ہوں اور اپنے حریف کو شکست دینے کا محض عزم نہیں رکھتا بلکہ سکت کا بھی حامل ہوں۔
جسمانی و ذہنی صحت کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے جو بائیڈن نے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں بھرپور طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ عمر کے حوالے سے تنقید بے جا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر پر اس حوالے سے بھی تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 میں دوبارہ شکست دوں گا۔ اںہیں 2024 کہنا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ بھولنے کی بیماری (ڈیمینشیا) میں بھی مبتلا ہیں۔ جسمانی نقاہت کے باعث اُنہیں چلنے پھرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں پہلے صدارتی مباحثے میں شکست اور ہزیمت کے بعد صدر بائیڈن پر تنقید میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ملک بھر سے لوگ اور سیاسی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اب انہیں انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانا چاہیے تاکہ ڈیموکریٹک پارٹی کسی توانا امیدوار کو میدان میں اتارے۔
امریکی ریاست وسکونسن میں میڈیسَن کے مقام پر ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، میں الیکشن لڑوں گا اور جیتوں گا۔ امریکا میں صدارتی انتخاب 5 نومبر کو ہوگا۔
صدر نے کہا مجھے معلوم ہے کہ قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ کہا جارہا ہے کہ میں شاید انتخابی دوڑ میں نہیں رہو گا۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میں اس دوڑ میں ہوں اور رہوں گا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میرے دماغ کا معائنہ کرایا جانا چاہیے۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اِس کی کوئی ضرورت نہیں۔
مباحثے میں شکست کے بعد پہلے ٹی وی انٹرویو میں اے بی سی نیوز سے گفتگو کے دوران جو بائیڈن نے کہا مباحثے کو میں نے ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر بھلادیا ہے۔ میں اب بھی پُرعزم ہوں اور مقابلہ کروں گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ مباحثے میں شکست کے لیے میں کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہراؤں گا، جو کچھ بھی ہوا اُس کا ذمہ دار میں خود ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے منصب کی تمام ذمہ داریاں وہ بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی لوگ صدر بائیڈن کو غیر معمولی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ امریکی ووٹرز شدید ذہنی الجھن کا شکار ہیں کہ اب کسے ووٹ دیں۔ اگر صدر بائیڈن کو ووٹ دیتے ہیں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگلے چار سال تک ملک کے معاملات الجھے رہے ہیں اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہیں تو ایک طرف اُن کی جذباتیت سے خطرات لاحق ہیں اور دوسری طرف اُن کی عمر بھی اچھی خاصی ہے۔ اگر صدر منتخب ہونے کے بعد اُن کی جسمانی و ذہنی صحت بھی جواب دے گئی تو کیا ہوگا۔
امریکی ووٹرز کی خاصی معقول تعداد چاہتی ہے کہ صدر بائیڈن اب انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں کیونکہ اس معاملے کا پورا دباؤ اب اُن کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ صدر بائیڈن بھولنے کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں، اُن کا ذہن اچانک بلینک ہو جاتا ہے۔ وہ چلنے پھرنے میں بھی شدید نقاہت محسوس کرنے لگے ہیں۔ طیارے کی سیڑھیوں پر اور ریلیوں میں اسٹیج سے اترتے ہوئے وہ کئی بار گرچکے ہیں۔
یہ سب کچھ عام امریکی کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ امریکی ووٹرز کی مجبوری یہ ہے کہ اُن کے پاس دو میں سے کسی ایک صدارتی امیدوار کو ووٹ دینے کا اختیار ہے اور دونوں ہی بوڑھے ہیں۔
Comments are closed on this story.