پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی تو اس کا انجام ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھی برا ہوگا، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں واپسی کیلئے پُرامید پارٹی کے سابق رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہیں اگر پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی تو اس کا انجام ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھی برا ہوگا۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ میں پی ٹی آئی قیادت پر پہلے بھی تنقید نہیں کرنا چاہتا تھا اب بھی نہیں کرنا چاہتا، لیکن جو بات انہوں نے کی تھی اس کا جواب دینا ضروری تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 9 مئی سے پہلے جو قیادت ظلم و جبر اور بربریت کا سامنا اس نے کیا، پنجاب اور کراچی میں جس طرح بربریت اور فسطائیت کا مظاہرہ ہوا خیبرپختونخوا کی لیڈرشپ اس طرح سے نشانہ نہیں بنی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ کہہ رہے ہیں میری پارٹی میں واپسی کا فیصلہ عمران خان رہائی کے بعد کریں گے، میری نظر میں جو موجودہ حکمت عملی ہے اس سے ان کی رہائی میں بہت لمبی رکاوٹ ہے اور وہ رہا نہیں ہو پارہے۔
عمران خان کو رہائی کیلئے جو ڈیل آفر کی گئی وہ آج بھی ہے، پی ٹی آئی ترجمان
انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں ٹائمنگ سب کچھ ہوتی ہے، پہلے تو بہت اہم مواقع ضائع کئے گئے، سب سے اہم موقع 9 فروری تھا جب سارے کا سارا الیکشن چوری ہوا، 9 فروری کو پوری قوم کو باہر لانے کی کوشش کی جانی چاہئیے تھی، لیاقت چٹھہ نے جب دھاندلی کا سارا بھانڈا پھوڑا اس وقت احتجاج کی کال ہوتی تو وہ بہت مؤثر ہوتی اور اس کا بڑا اثر پڑتا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ سب سے بڑی حکمت عملی ابھی یہ ہے کہ آپ اپوزیشن اتحاد بنا سکتے ہیں یا نہیں، اگر اپوزیشن اتحاد بنائے بغیر اس میں کود پڑے تو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو اتحاد ہوگا، اس کا پہلا کام تو یہ ہو کہ بات چیت کرے، ابھی آپ اکیلے حکومت یا اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کریں گے تو اس کا کوئی وزن نہیں ہوگا، جب تک اگلوں کو ادراک نہ ہو کہ مذاکرات ناکام ہونے کے نتائج بھگتنے ہوں گے تو وہ آپ کی بات کو کیوں وزن دیں گے، لہٰذا جب آپ مذاکرات میں جائیں تو آپ کا اتنا وزن ہو کہ حکومت اس کو رد نہ کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ جب مولانا فضل الرحمان، عمران خان، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی اکٹھے ہوجائیں گے تو پھر اس الائنس کو رد کرنا آسان نہیں ہوگا، وہ اس لئے کہ خیبرپختونخوا میں 99.75 فیصد ترجمانی پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی ہے، اگر ایک پورا صوبہ وفاق کے خلاف کھڑا ہے تو پھر وفاق کی مجبوری ہے کہ وہ اس صوبے کی خواہشات کو ساتھ لے کر چلے، دوسری بات یہ کہ اس اتحاد کی اسٹریٹ پاور ایسی ہے کہ حکومت اسے نظر انداز کرسکے، لہٰذا حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو گفتگو کیلئے آنا پڑے گا۔
مقدس گائیں کیلئے بڑے قصائی کی ضرورت ہے، بجٹ غلطیوں کے مرتکب محمد اورنگزیب نہیں، مفتاح اسماعیل
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا جو حال ہوا ہے، پی ٹی آئی اگر یہ کرے گی تو ان کا حشر اسے سے بھی برا ہوجائے گا، کیونکہ لوگ اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ پر اتنے زوردار طریقے سے آچکے ہیں کہ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر جائے کہ یہ تو ڈیل کرکے بیٹھ گئے تو پھر تحریک انصاف کا عروج ہے وہ تباہ و برباد ہوجائے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ اور فوج سے رابطہ ختم کرنا غلطی تھی، اب پہلے تلخیوں کو ختم کرنا ہوگا، سب سے بڑی جو تلخی پیدا ہوئی ہے وہ عدت کیس چلانے سے ہوئی ہے، عدت کیس پر معذرت کرنی چاہئیے اور اس پر معذرت کرنی چاہئیے، اس کے بعد عمران خان سے براہ راست بات چیت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاملات ٹھیک ہونے ہوں تو وہ کچھ ملاقاتیں دور ہوتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ 100 فیصد پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ بزدار صاحب بدل دئیے جائیں اور فوج بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے کہ انہیں بدل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کی خواہش تھی کہ پہلی ایکسٹینشن میں نے پی ٹی آئی سے لے لی ہے دوسری میں شریف برادران سے لے لوں، عمران خان کا ان سے لڑنے کا کوئی پلان نہیں تھا یہ 100 فیصد جنرل باجوہ کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اپنی ایک خواہش بنا لی تھی جس کی وجہ سے معاملات اس نہج پر پہنچے، اگر وہ اپنی پہلی ایکسٹینشن نہیں لیتے تو وہ آج کتنے بڑے آدمی ہوتے ان کی کتنی بڑی لیگیسی ہوتی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں میری واپسی نہ ہوسکی پھر بھی عمران خان کا ساتھ دینا ضروری ہے، اس لئے کہ اگر عمران خان یہ لڑائی ہار جاتے ہیں تو پاکستان کے عوام ایک طویل عرصے تک کسی فیصؒہ سازی میں آہی نہیں سکیں گے۔
Comments are closed on this story.