انسانی دماغی خلیات سے چلنے والا روبٹ تیار، مصنوعی ذہانت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت انسانوں کی ذہانت سے میل نہیں کھا سکتی، اسی لیے سائنسدانوں نے اب اے آئی کو ہی انسانی دماغ دے دیا ہے۔
چین کی تیانجن یونیورسٹی کے محققین نے ایک ایسا ہیومنائیڈ روبوٹ تیار کیا ہے جو انسانی دماغ کے خلیات استعمال کرتے ہوئے کام کرتا ہے۔
ابتدائی طور پر یہ تصور کسی سائنس فائی فلم کی طرح محسوس ہو سکتا ہے، لیکن محققین کے مطابق، انسانی دماغ کے خلیوں کے ساتھ یہ ہیومنائڈ ہائبرڈ روبوٹ ذہانت کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔
نیو اٹلس کے مطابق، اس نئے روبوٹ کو ”چپ پر ںصب دماغ“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اس میں ان اسٹیم سیلز کا استعمال کیا گیا ہے جو اصل میں انسانی دماغ کے خلیوں میں نشوونما کے لیے ہوتے ہیں۔
ان خلیوں کو ایک الیکٹروڈ کے ذریعے کمپیوٹر چپ کے ساتھ مربوط کیا گیا، جس سے روبوٹ کو معلومات پر کارروائی کرنے اور مختلف کام انجام دینے کے قابل بنایا گیا۔
اس سیٹ اپ نے روبوٹ کو معلومات کو انکوڈ کرنے اور ڈی کوڈ کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد روبوٹ نے رکاوٹوں کے گرد گھومنے پھرنے سے لے کر اشیاء کو پکڑنے تک کے کاموں کو مکمل کیا۔
یہ ہیومنائیڈ روبوٹ مبینہ طور پر اس پروجیکٹ کا حصہ ہے جسے محققین ”the world’s first open-source brain-on-chip intelligent complex information interaction system“ (دنیا کا پہلا اوپن سورس برین آن چپ ذہین پیچیدہ معلومات کے تعامل کا نظام) کہتے ہیں۔
انسانی دماغ فالتو یادیں ’ٹریش فولڈر‘ میں رکھ دیتا ہے:تحقیق
عام روبوٹس کے برعکس، جو پہلے سے پروگرام شدہ ہدایات پر انحصار کرتے ہیں، یہ نیا انسانی دماغی روبوٹ اپنے دماغ کے امپلانٹ کو سیکھنے اور اپنے ماحول کے مطابق ڈھالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اگرچہ اس میں روایتی بصری صلاحیتوں کا فقدان ہے، لیکن یہ برقی سگنلز اور حسی ان پٹ کا جواب دیتا ہے، اس سے حرکات و سکنات کی رہنمائی کرتا ہے۔
انسانی دماغ کے خلیے روبوٹ کو رکاوٹوں سے بچنے، اہداف کو ٹریک کرنے اور اشیاء کو پکڑنے کے لیے بازو کی نقل و حرکت کو منظم کرنے میں مدد کرتے ہیں، یہ مکمل طور پر برقی سگنلز اور حسی ان پٹ کے ذریعے کام کرتے ہیں۔
موناش یونیورسٹی، آسٹریلیا میں ”ڈش برین“ کے نام سے مشہور اسی طرح کے پروجیکٹ میں، محققین نے مشاہدہ کیا کہ انسانی نیوران اے آئی سے زیادہ تیزی سے کام سیکھ سکتے ہیں۔ ’
محققین نے تقریباً 800,000 دماغی خلیات کو ایک چپ پر بڑھایا، اسے نقلی ماحول میں ڈالا، اور اس سائبورگ کو تقریباً پانچ منٹ کے اندر پونگ کھیلنا سیکھتے دیکھا۔ اس منصوبے کو آسٹریلوی فوج نے فوری طور پر فنڈ فراہم کیا اور اسے کارٹیکل لیبز نامی کمپنی میں شامل کیا گیا’۔
انسان نما سعودی روبوٹ کی نازیبا حرکت نے آن لائن تنازعہ کھڑا کردیا
نیو اٹلس کو دئے گئے ایک بیان میں، کارٹیکل لیبز کے چیف سائنٹیفک آفیسر بریٹ کیگن نے انکشاف کیا کہ اگرچہ انسانی دماغ کے خلیات کے ساتھ ہیومنائڈ روبوٹ کی تخلیق اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن انسانی نیوران سے بڑھے ہوئے بائیو کمپیوٹرز، مصنوعی ذہانت کی مشین کے مقابلے میں تیزی سے سیکھتے اور بہت کم طاقت استعمال کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ انسانی دماغ کے خلیوں والے ہیومنائڈز میں پیشرفت طبی سائنس میں خاص طور پر اعصابی حالات کے علاج میں اہم پیشرفت کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کی ایک امید افزا ایپلی کیشن انسانی دماغ کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت ہے۔ کھوئے ہوئے نیوران کو تبدیل کرنے اور اعصابی سرکٹس کی تعمیر نو کے ذریعے، ڈاکٹر اعصابی نقصان کے مریضوں میں دماغی افعال کو بحال کرنے کے لیے دماغی آرگنائیڈ ٹرانسپلانٹ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
تاہم، امید افزا نقطہ نظر کے باوجود، یہ ٹیکنالوجی اہم اخلاقی سوالات اٹھاتی ہے۔
جیسے جیسے روبوٹس میں انسانی دماغی خلیات کا انضمام زیادہ ترقی یافتہ ہوتا جاتا ہے، حیاتیاتی ذہانت اور مصنوعی ذہانت کے درمیان کی لکیر دھندلی ہوتی چلی جاتی ہے۔
اخلاقی ترقی اور اس طرح کی ٹیکنالوجیز کے استعمال کو یقینی بنانا سائنسی برادری کے لیے ایک اہم بات ہوگی۔
ٹیسلا کا انسان نما روبوٹ جو انڈے ابال سکتا ہے اور ناچ بھی سکتا ہے
اس کے علاوہ، ان مشینوں کا ایک اور منفی پہلو دماغ کے خلیات سے جڑی مشینیں ہیں جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ انہیں کھانا کھلانا، پانی پلانا، درجہ حرارت پر قابو رکھنا، اور جراثیم اور وائرس سے محفوظ رکھنا۔
Comments are closed on this story.