انسانی جسم کا سب سے ’کڑوا‘ حصہ جسے پورا مردہ ہڑپ کرجانے والے آدم خور قبائل بھی نہیں کھاتے
دنیا میں ایک آدم خور قبیلہ ایسا بھی ہے، جو آخری رسومات کے طور پر اپنے قبیلے کے مرنے والے افراد کو دفناتا یا جلاتا نہیں، بلکہ کھا لیتا تھا، یہ قبیلہ مُردہ شخص کا پورا جسم ہڑپ کرجاتا، لیکن انسانی جسم کا ایک حصہ ایسا ہے جو اتنا کڑوا ہے کہ یہ قبیلہ اسے چھوڑنے پر مجبور تھا۔
”فور“ لوگ پاپوا نیو گنی کے ضلع اوکاپا میں رہتے ہیں اور 1960 تک مرنے کے بعد ایک دوسرے کو کھاتے تھے۔ لیکن اسے ایک سنگین فعل کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا اور مانا جاتا تھا کہ کیڑوں کے کھانے سے بہتر ہے مرنے والے کے اپنے قریبی اسے کھا لیں۔
نوجوان محبوبہ کو قتل کرکے اس کا مغز کھانے اور خون پینے والا آدم خور درندہ
بدقسمتی سے 1950 کی دہائی میں، ماہر بشریات شرلی لنڈنبام نے اس قبیلے میں ایک اعصابی بیماری ”کورو“ کی تشخیص کی، جس نے فور قبیلے کی اس رسم اور بیماری کی وبا کے درمیان تعلق قائم کیا۔
شرلی نے برطانوی اخبار ڈیلی اسٹار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ لاشوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں تو قبیلے والوں نے بتایا کہ ’ہم نے انہیں کھایا!‘، جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس عمل نے ہی انہیں بیمار کیا ہے۔
کورو ایک لاعلاج اور مہلک اعصابی حالت ہے جو جھٹکوں اور اعصابی نظام کو بند کرنے کا باعث بنتی ہے۔
انسانی گوشت کیوں حرام ہے؟ جانئے سائنس کی روشنی میں
خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بیماری قبیلے میں ایک متاثرہ شخص کے دماغ کو کھانے سے منتقل ہوئی ہے۔
شرلی لنڈنبام نے انکشاف کیا کہ فور کے لوگ ’ایک حصے کو چھوڑ کر پورا جسم اور جسم کے تمام اعضاء کھا لیتے تھے‘۔۫
انہوں نے کہا، ’ایک حصہ ایسا تھا جو انہوں نے نہیں کھایا جو کھانے میں بہت کڑوا تھا۔ جسم کے تمام اعضاء کھا گئے، سوائے پِتّے کے، جسے بہت کڑوا سمجھا جاتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس قبیلے میں اگر آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے گھر والے آپ کو کھائیں، تو آپ وصیت کر سکتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے، لیکن ان میں سے چاہتے ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد کھا لیا جائے، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کیڑے ہمارے جسم کو کھائیں‘۔
شرلی لنڈنبام نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں فور کے لوگوں کا مطالعہ کیا، اور جب انہوں نے یہ معلوم کر لیا کہ کورو آدم خوری کے ذریعے پھیل رہی ہے تو وہ انسانی مردے کھانا بند کرانے میں کامیاب ہو گئیں۔
شرلی کہتی ہیں، ’میرے اب بھی وہاں دوست موجود ہیں، کچھ لوگ مجھے کبھی کبھار ای میل بھی بھیجتے ہیں۔‘
Comments are closed on this story.