دہلی کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے، سخت تر قوانین کا نفاذ
بھارت کے دارالحکومت میں نئی تعذیرات نافذ کردی گئی ہیں۔ نئے قوانین کے نفاذ کا مقصد نوآبادیاتی دور کے قوانین کو ختم کرنا ہے۔ نئے قوانین کے تحت خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد اور دہشت گردوں کے لیے سخت تر سزائیں رکھی گئی ہیں۔
نئے قوانین کے ذریعے انڈین پینل کوڈ، کوڈ آف کرمنل پروسیجر اور انڈین ایویڈینس ایکٹ کو ختم کیا گیا ہے۔ نئے قوانین کے تحت بہت سے عمومی جرائم کا بھی احاطہ کیا جائے گا۔
سڑکوں پر کہیں بھی ٹھیلا لگانے، پتھارے لگاکر مال بیچنے اور پیدل چلنے والوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے پر بھی کارروائی ہوگی۔ پہلا کیس دہلی کے ایک معروف کاروباری علاقے میں ایک دکاندار کے خلاف درج کیا گیا ہے جس نے دکان کے باہر فٹ پاتھ کا بڑا حصہ گھیر کر لوگوں کے لیے گزرنا دشوار کردیا تھا۔
سیاسی و سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر معمولی رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث دہلی کو کنٹرول کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ دہلی کی آبادی 3 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ کرپشن بہت زیادہ ہے جس کے باعث قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ ملک بھر سے اور بالخصوص اتر پردیش اور ہریانہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ دہلی پہنچ کر یہیں آباد ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور معاشی امکنات کے حصول کی جنگ خطرناک شکل ختیار کرگئی ہے۔
دہلی میں مقامی اور غیر مقامی کا معاملہ بھی خطرناک حدوں کو چُھو رہا ہے۔ آبادی میں بے لگام اضافے سے رہائشی مسائل بھی پیدا ہوئے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنا بھی ریاستی حکومت کے لیے ممکن نہیں رہا۔ واضح رہے کہ نئی دہلی دارالحکومت ہے جبکہ دہلی ریاست ہے جس کی پوری حکومتی و انتظامی مشینری موجود ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث بنیادی ڈھانچے کے کمزور پڑنے پانی اور بجلی کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور ہر سال مون سون کے سیزن میں دہلی کے بیشتر علاقے ڈوب جاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے کئی شہروں میں غیر معمولی آبادی کے نتیجے میں مسائل خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ چکا ہے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنا متعلقہ حکومتی مشینری کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہی حال خطے کے دیگر ممالک کے بڑے شہروں کا بھی ہے۔ معاشی امکانات کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور سہولتیں ناکافی ہوتی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ معاشی ہی نہیں، معاشرتی بحران بھی پیدا کر رہا ہے۔
Comments are closed on this story.