Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

حکومت مالدار ترین شعبے کو انکم ٹیکس میں چھوٹ دینے پر رضامند

گزشتہ برس 960 ارب کا منافع کمانے والے شعبے کو مزید 60 ارب روپے کمانے کا موقع مل جائے گا
شائع 27 جون 2024 12:39pm

ایک طرف حکومت کو مالی معاملات میں انتہائی نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے اور دوسری طرف بینکوں کے منافع پر انکم ٹیکس کی شرح گھٹانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت سیالیت کے بحران سے دوچار وزارتِ خزانہ کو قرضے دینے والے بینکوں کے منافع پر لیے جانے والے انکم ٹیکس کی شرح میں 15 فیصد تک کٹوتی کرسکتی ہے۔ اس صورت میں گزشتہ سال 960 ارب روپے کا خطیر منافع کمانے والے سیکٹر کو مزید 60 ارب روپے کمانے کا موقع ملے گا۔

ذرائع کے مطابق حکومت اور تجارتی بینکوں کے درمیان ایڈوانسز ٹو ڈپازٹ ریٹ بیزڈ انکم ٹیکس ختم کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے انکم ٹیکس آرڈیننس میں فائنانس ایکٹ 2024 کے ذریعے ضروری تبدیلیاں کیے جانے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب، جو خود بھی سینیر بینکر ہیں، کل (جمعہ کو) فائنانس ایکٹ منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کریں گے۔ ملک کے مالدار ترین شعبے کو 60 ارب روپے کا فائدہ پہنچانا حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات میں حیرت انگیز اور غیر معمولی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت انتہائی افسوس ناک سمجھا جارہا ہے جب کم و بیش تمام ہی اشیائے صارفین پر ٹیکس نافذ کردیا گیا ہے اور تنخواہ دار طبقے سمیت حالات کی چکی میں پسنے والے تمام ہی پاکستانی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ ملک بھر میں 27 تجارتی بینکوں نے 2023 میں مجموعی طور پر 960 ارب روپے کا منافع کمایا ہے۔ حکومت بینکوں پر تو ٹیکس کی شرح گھٹانے پر آمادہ ہے مگر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ گھٹانے کے لیے تیار نہیں۔ بڑھی ہوئی شرح کے تحت تنخواہ دار طبقہ اگلے مالی سال کے دوران قومی خزانے کو 435 ارب روپے ادا کرے گا۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ فوجی قیادت نے بھی وزیرِ خزانہ سے استدعا کی ہے تنخواہ دار طبقے پر مجوزہ ٹیکس اضافے پر نظرِثانی کی جائے اور پراپرٹی کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس کی 15 فیصد شرح متعین کردی جائے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ابتدا میں بینکوں کے لیے اضافی انکم ٹیکس اس لیے تجویز کیا تھا کہ ٹیکس کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی بینک ٹیکس سے جان نہ چھڑاسکیں۔ اضافی انکم ٹیکس 2022 میں متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد حکومت سے زیادہ صنعتی شعبے کو قرضے دینے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

بیشتر تجارتی بینکوں کا حال یہ ہے کہ لیوی سے بچنے کے لیے 31 دسمبر یعنی ٹیکس کی ادائیگی کی ڈیڈ لائن سے قبل حکومت کے لیے اپنے قرضوں کی ری ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں۔

ایف بی آر نے تجویز پیش کی تھی کہ بینک سال بھر حکومت کو جو قرضے دیتے ہیں اُن کی بنیاد پر ٹیکس کی شرح طے کی جائے۔ اس صورت میں حکومت بینکوں سے کم و بیش 60 ارب روپے اضافی طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتی۔ اس خامی پر قابو پانے کے بجائے حکومت انکم ٹیکس ہی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف آئی آر سے طے پانے والے معاملات کے تحت آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا پیشگی انکم ٹیکس 30 جون سے قبل ادا کریں گے۔ بینک 2023 اور 2024 کا سپر ٹیکس بھی ادا کریں گے۔ اس کے بدلے حکومت نے، جیسا کہ بتایا جارہا ہے، اضافی انکم ٹیکس ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کے باوجود پیشگی ادائیگی 15 فیصد انکم ٹیکس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔

2023 میں بینکوں نے 1600 ارب روپے کا خام منافع کمایا اور انکم ٹیکس کی مد میں 960 ارب روپے ادا کیے۔ بینکوں کی طرف سے دباؤ ڈالے جانے پر حکومت نے 2023 کے لیے اضافی انکم ٹیکس معطل کردیا جو جنوری 2024 میں بحال ہوگیا۔

بینکوں کے لیے انکم ٹیکس کی نارمل شرح 39 فیصد ہے۔ اگر بینکوں کا گراس ایڈوانسز ٹو ڈپازٹ ریشو 40 فیصد تک ہو تو حکومت بینکوں کی طرف سے ملنے والے قرضوں پر 44 فیصد انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔

بینکنگ سیکٹر نے ایڈوانسز ٹو ڈپازٹ ریشو کے تحت لیے جانے والے ٹیکس کی مذمت کی ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ وہ حکومت کو قرضے لینے پر نہیں کرتا۔ حکومت آئندہ مالی سال میں بینکوں سے، پہلے قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے، مزید 24 ارب روپے کے قرضے لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے براہِ راست قرضے لینے کی ممانعت کے بعد حکومت تجارتی بینکوں سے قرضے لینے کو ترجیح دے رہی ہے۔

ایف بی آئی کو ایک خط میں پاکستان بینکز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل منیر کمال نے بتایا ہے کہ بینکوں کی بیلینس شیٹس کا 84 فیصد حکومتی قرضوں کی شکل میں ہے۔

ADDITIONAL INCOME TAX

RELIEF TO BANKS

DISCOUNT IN ADDITIONAL INCOME TAX

MOST PROFIT EARNING SECTOR