فیصل واوڈا ایک اور بڑا اسکینڈل سامنے لے آئے، سینیٹ کمیٹی گاڑیوں پر ٹیکس کی مخالفت کرنے پر مجبور
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران سینیٹر فیصل واوڈا ایک اور بڑا اسکینڈل سامنے لے آئے، دوران اجلاس کمیٹی نے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی مخالفت کرتے ہوئے گاڑیوں پر ٹیکس کے معاملے کو مؤخر کر دیا۔
سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹر فیصل واوڈا قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران انکشاف کیا کہ بیشتر ارکان پارلیمنٹ کے پاس اسمگل شدہ گاڑیاں ہیں۔
دوران اجلاس گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کی پالیسی کو سبوتاژ کیا جارہا ہے، مجھے پتہ ہے کون اس میں ملوث ہے، ایک سیکنڈ نہیں لگے گا نام لینے میں۔
انہوں نے کہا کہ میں کاروباری آدمی ہوں مجھے معلوم ہے سیکنڈل میں کون کون ملوث ہے۔
ٹیکس کے معاملے پر فیصل واوڈا چیئرمین ایف بی آر زبیر امجد ٹوانہ سے بھی الجھ پڑے۔
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، چھ ماہ میں اگر کسی کی شپمنٹ پہنچتی ہے اس کو تو پتہ ہی نہیں تھا، پالیسی بناکر جب اس پر نظرثانی کی جاتی ہے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا ڈیڑھ کروڑ روپے سے اوپر کی گاڑی پر 25 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے، جس پر فیصل واوڈا کا کہنا تھا ٹیکس اور پالیسیوں میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی اس ملک میں انڈسٹری نہیں لگاتا۔
آئی ایم ایف اہداف کے حصول سے متعلق کےپی حکومت نے وفاق کے سامنے 2 شرائط رکھ دیں
ایف بی آر حکام کا کہنا تھا درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس لگا ہے مقامی طور پر تیار گاڑیوں پر ٹیکس نہیں لگایا، جس پر سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا یہ میرا کاروبار ہے مجھے پتہ ہے گاڑیوں پر ٹیکس کون لگوا رہا ہے، مجھے مجبور نہ کیا جائے میں پبلک میں بتا دوں گا۔
جس کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے گاڑیوں پر ٹیکس کے معاملے کو مؤخر کر دیا۔
سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا تھا بجٹ میں ٹیکس لگانے سے پورے پاکستان میں پراپرٹی مارکیٹ بیٹھ گئی ہے، اب عام آدمی گھر نہیں خرید سکے گا، یہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ہر چیز کا بھٹہ بٹھا دیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر 35 فیصد تک اور غیر تنخواہ دار طبقے پر 45 فیصد تک ٹیکس عائد ہے، پراپرٹی سیکٹر میں فائلر کیلئے ٹیکس 15 فیصد اور نان فائلر کیلئے 45 فیصد ہے، پراپرٹی سیکٹر میں ٹیکسوں کی شرح فیئر ہے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا پراپرٹی پر بڑھائے جانے والے ٹیکس سے عام آدمی گھر کیسے بنائے گا، جس پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا سیمنٹ پر فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں ایک روپیہ بڑھانے کی تجویز ہے کیونکہ سیمنٹ کے ریٹ بڑھنے سے ایف بی آر کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے سے بڑھا کر 3 روپے کلو کر دی گئی ہے، ایک روپیہ اس لیے بڑھایا جا رہا ہے کہ ایف بی آر کو ریونیو آئے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کمیٹی اجلاس کے دوران استفسار کیا کہ سگریٹ پر ایف ای ڈی بڑھانے سے کیا سگریٹ کی کھپت کم ہوئی ہے؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا رسمی شعبے کی پیداوار میں 40 فیصد کی کمی ہوئی ہے، ٹیکس بڑھانے کے باوجود عوام نے سگریٹ پینا نہیں چھوڑا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ رواں سال ایف بی آر نے نان ٹیکس پیڈ 40 کروڑ سگریٹ اسٹک پکڑی ہیں، گزشتہ سال 14 کروڑ سگریٹ پکڑے گئے تھے، کسی دکان پر اسمگل شدہ سگریٹ ملے تو ایسی دکان کو سیل کر دیا جائے گا۔
سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا اگر آپ چھوٹی اور بڑی تمام دکانیں بند کر سکتے ہیں تو اجازت ہے جبکہ فاروق ایچ نائیک نے کہا کسی بھی دکان پر فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمت نہیں لکھی ہوتی، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا، تمام اشیاء کی قیمت نمایاں لکھی ہونا یقینی بنائیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فاروق ایچ نائیک کی تجویز کی منظوری دے دی۔
چیرمین ایف بی آر نے بتایا کہ پلاٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک نے پوچھا پلاٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی کس طرح عائد کی گئی؟ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ہم سیلز ٹیکس عائد کرنا چاہتے تھے اس لیے ایکسائز ڈیوٹی عائد کی۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ پلاٹ تو اشیاء میں نہیں آتے نہ ہی یہ خدمات میں آتے ہیں، آپ نے پلاٹ کی خریداری پر ٹیکس کس قانون کے تحت لگایا؟ آپ نے قانون کو کھینچ کر ان کو شامل کیا ہے، یہ قانون چیلنج ہو جائے گا میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔
Comments are closed on this story.