ٹک ٹاک پر پابندی کیس: پشاور ہائیکورٹ نے حکومت سے جواب طلب کرلیا
پشاور ہائی کورٹ نے ویڈیو شیئرنگ کی مقبول ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر مکمل پابندی لگانے کی درخواست پر وفاقی حکومت سے 15 روز کے اندر جواب طلب کیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ٹک ٹاک پر ’گستاخانہ اور ناشائستہ‘ مواد اپ لوڈ کرنے سے روکنے میں متعلقہ ادارے ناکام رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل بینچ نے 20 جون سماعت کے لیے مقرر کردی۔
درخواست ایک وکیل عمران خان کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور وزارت اطلاعات سمیت مدعا علیہان کو پاکستان میں ٹک ٹاک پر مستقل طور پر پابندی لگانے کی ہدایت کرے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ٹک ٹاک کی گائیڈ لائن پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ انہوں نے عدالت سے مزید استدعا کی کہ مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ مستقبل میں ایسی درخواستوں کی اجازت نہ دیں جس سے پاکستانی عوام کی اخلاقی اقدار متاثر ہوں۔
درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹر بابر شہزاد عمران پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سوشل میڈیا کے فائدے موجود ہیں، کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے پاکستان جیسے ممالک میں شرافت، اخلاقیات اور اسلام کی شان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹک ٹاک پلیٹ فارم پر اسلام مخالف، پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین آمیز، فحش، ناشائستہ، فرقہ وارانہ اور اہانت آمیز مواد پھیلا کر اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اور اس طرح پاکستان کے آئین، پی ای سی اے، پی پی سی اور قانون سازی کے اصولوں کے منافی ہے۔
Comments are closed on this story.