ایغور مسلم ثقافت کو خطرہ، سنکیانگ میں سینکڑوں دیہات کے ’مسلم‘ نام تبدیل، ہیومن رائٹس واچ کا دعوی
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق چین نے سنکیانگ کے علاقے میں سینکڑوں دیہاتوں کے مسلم نام تبدیل کر دیے ہیں جس کا مقصد ایغور مسلم ثقافت کو مٹانا ہے۔
بی بی سی کے مطابق ایچ آر ڈبلیو نے رپورٹ میں بتایا کہ سنکیانگ کے سینکڑوں دیہاتوں کے نام کو 2009 سے 2023 کے عرصے درمیانی عرصے میں تبدیل کر دیا گیا جن کے نام ایغوروں کے مذہب، تاریخ یا ثقافت سے متعلق تھے۔
”سلطان“ اور ”مزار“ جیسے الفاظ کو ”ہم آہنگی“ اور ”خوشی“ میں تبدیل کردیا گیا۔ بی بی سی نے ان الزامات کے بارے میں لندن میں چین کے سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا۔
ایچ آر ڈبلیو اور ناروے میں قائم تنظیم ایغور ایچ جی ای ایل پی کے محققین نے گزشتہ 14 برس کے عرصے میں چین کے قومی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ سے سنکیانگ کے گاؤں کے ناموں کا مطالعہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں سنکیانگ کے 25,000 گاؤں میں سے 3,600 کے نام تبدیل کیے گئے تھے۔ ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ تقریباً 630 تبدیلیاں ایغور مذہب، ثقافت یا تاریخ کے حوالہ جات کو مٹانے کا باعث بنتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں، چینی حکام سنکیانگ میں اقلیتی اویغور آبادی کو چینی ثقافت کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش میں معاشرے کو یکسر تبدیل کر رہے ہیں۔
چین کی ایغور آبادی کے لیے معنی خیز الفاظ مثلاً Hoja (صوفی مذہبی استاد کا لقب)، سلطان کو ”چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظریے“ کی عکاسی کرتے ہوئے لفظ ”ہم آہنگی“ اور ”خوشی“ میں تبدیل کردیا۔
رپورٹ کے سنکیانگ کے جنوب مغرب میں واقع ایک گاؤں اکٹو کا ذکر کیا گیا جس کا نام 2018 میں ’سفید مسجد‘ سے ’اتحاد‘ رکھ دیا گیا۔
چین کے زیادہ تر ایغور مسلمان ملک کے شمال مغرب میں سنکیانگ، چنگھائی، گانسو اور ننگزیا جیسے علاقوں میں رہتے ہی جبکہ چین میں تقریباً 2 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اگرچہ چین سرکاری طور پر ایک ملحد ملک ہے، حکام کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کا روادار ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی قائم مقام چائنہ ڈائریکٹر مایا وانگ نے کہا کہ چینی حکام سنکیانگ کے سینکڑوں گاؤں کے مسلم ناموں یا شناخت کو تبدیل کررہی ہے جو حکومتی پروپیگنڈے کی عکاسی ہے۔
Comments are closed on this story.