فوج کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے، شاہد خاقان
ڈیفنس بجٹ بڑھا ہے ڈیفنس بجٹ 17 سو ارب تھا اور اب 6 سال بعد ڈیفنس بجٹ 21 سو کا ہو گیا ہے ہمیں دہشت گردی کے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ آپ کو سیکیورٹی فورسز کی ضرورت ہے۔ شاہد خاقان کی آج کے پروگرام اسپوٹ لائٹ میں گفتگو کہا کہ اصولی طور پر فوج کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے، انہیں اس سے دور رہنا چاہیے کیونکہ اس سے مزید خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آپ نے اپنا دفاع مضبوط کرنا ہے تو اور آپ کو اخراجات کرنے ہوں گے اور اس پر لوگوں کے سامنے بحث ہونی چاہیے۔ معیشت کو مضبوط بنائیں گے تو بندوق رکھ سکیں گے اور حکومت چلا سکیں گے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا ے تھا کہ میں خود پر تنقید کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ہم سب ناکام ہیں اگر ہم ناکام نہ ہوتے تو ملک یہاں نہیں ہوتا ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے کہ ہمیں معاملات کو کیسے حل کرنا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے یہ سوچ رکھی جائے۔ میں نے پی ایم ایل این کے ساتھ 35 سال گزارے ہیں۔ سیاست میں 29، 30 سال کی عمر میں آیا ہوں۔ مسلم لیگ ن سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن سیاست میں ایک وقت ہوتا ہے جب آپ پارٹی میں مخالفت کرتے ہیں۔ جس کے بعد ایک بنیادی نکتہ پر آپ اپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں ۔ ن لیگ کا اصول، آئین اور اپنے بیانیے کے ووٹ کو عزت دو کا نظریہ تھا ۔ جو کہ تبدیل ہو ا تو میرے لیے جاری رکھنا مشکل تھا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں ووٹ آف نو کانفیڈینس کے حق میں تھا کیونکہ یہ جمہوری طریقہ ہے۔ پی ٹی آئی کے 21 ایم این ایز مجھ سے رابطے میں تھے کہ ہم پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں چل سکتے اور بتائیں کہ آپ ہمیں کیسے ایڈجسٹ کریں گے۔ اورعمران خان صاحب اکثریت کھو چکے تھے۔ باجودہ صاحب نے نمبر پورے کر کے دیا ۔ جس کا بعد میں باجوہ صاحب نے اعتراف بھی کیا۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے کہا تھا کہ عدم اعتماد ہو گیا ہے تو حکومت نہ بنائیں اور الیکشن کرائیں کیونکہ حکومت نے مینڈیٹ قبول نہیں کیا۔ پارٹی نے اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا تو کوئی چارہ نہیں تھا ن لیگ نہ کہا ہر حال میں اقتدار میں آئیں گے جبھی راہیں جدا کیں ۔ یہ فیصلے بند کمروں کے فیصلے تھے ۔ 16 ماہ ایک طویل مدت ہے۔ اگر آپ اقتدار میں ہیں تو اقتدار میں فیصلے کیوں نہیں کرتے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ ۔ اگر اس ملک کو 3 فئیر اینڈ فری الیکشن دے دیا جائے تو سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ سیاست دانوں، فوج اور عدالتیں ایک ساتھ بیٹھیں اور مسئلہ حل کریں، اگر ملک کے آءن پر عمل نہیں کرتے تو اس کو سب مل کر بدل لیں۔
بجٹ کے حوالے سے کہا کہ آپ کی معیشت نہیں بڑھی، ڈالر وہیں کا وہیں ہے ہے اور آپ کو 4 کھرب روپے سے زیادہ جمع کرنا ہے تو حکومت کو مزید ٹیکس لگائیں گے تو مہنگائی تو ہو گی ہی کیونکہ اپکو عوام کی جیبوں سے پیسے نکالیں ہیں انہیں ٹیکس اصلاحات کرنی چاہیے تھیں۔ آپ نے اس پر مزید بوجھ ڈالا کہ کون ٹیکس دے رہا ہے۔ ٹیکس کون لگا رہا ہے اس پر زیادہ بوجھ ڈالنے سے پیسہ نہیں آتا۔ اب جو 3 لاکھ روپے کما رہا ہے آپ اس کی جیب سے 1 لاکھ سے زائد کا ٹیکس کاٹیں گے تو پھر فائدہ کیا ہے؟
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آپ کو ٹیکس سلیب کم کرنا ہوگا اور سب کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ آپ کے پاس شناختی کارڈ نام کا ایک سسٹم ہے اور پورا پاکستان اس سے جڑا ہوا ہے۔ میں ہم نے 2010 میں 3 سلیب بنائے اور 1 لاکھ روپے ماہانہ پر کوئی ٹیکس نہیں تھا ہمارے پاس 3 سلیب ہیں، 5، 10، 15 فیصد موجود ہیں آخری سلیب 15 تھا۔ لوگ 30 سے فیصد 35 ٹیکس نہیں دیتے۔، لیکن وہ 15 فیصد ٹیکس دیں گے۔ آپ نے نان فائلر بنایا ہے۔ ٹیکس لگانے کا اثر غریب لوگوں پر پر پڑے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے اخراجات ہیں تو آپ کی تنخواہ ہے۔ حکومت آپ کی تنخواہ میں شریک ہے۔
انک مزید کہنا تھا کہ اپنی پارٹی کے حوالے اسے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بڑے نام کی پارٹی نہیں ہے۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں اور جو اس سے متفق ہے وہ ہماری پارٹی میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہم ایک پارٹی بنائیں گے اور اسے لانچ کریں گے اور پھر ہم ایسے لوگوں سے رابطہ کریں گے جو قابل بھروسہ ہیں اور پارٹی کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اسے بڑھا سکتے ہیں۔
آج کل کی نظریات کا دور ختم ہو گیا۔ تین بڑی پارٹیوں نے کیا ڈیلیور ہے؟ آج ملک کے معاملات کون حل کرے گا ۔ پاکستان پاکستان آپ کو جوڑتا ہے۔ آپ کو اصلاحات، فراہمی اور مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ قبلہ پاکستان کی ترقی ہے۔ آج ہمارا نظریہ ملک کی ترقی ہونا چاہیے۔ آج یہ اہم مسائل ہیں۔
Comments are closed on this story.