مصنوعی چمڑے نے قربانی کے جانور کی کھال کی قدر و قیمت گھٹادی
ایک زمانہ تھا جب قربانی کی کھالیں خاصے مہنگے نرخوں پر فروخت ہوا کرتی تھیں اور فلاحی ادارے زیادہ سے زیادہ کھالیں جمع کرنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ فنڈنگ زیادہ ہوسکے۔ اب قربانی کی کھالوں کی قیمت اِتنی گرچکی ہے کہ کھالیں جمع کرنے میں کسی کی کچھ خاص دلچسپی رہی نہیں۔
قربانی کی کھالوں کے دام گرنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے پروسیسنگ کے ذریعے مصنوعی چمڑا تیار کرنا بہت آسان ہوگیا ہے اور چین سمیت کئی ممالک سے مصنوعی چمڑا بہت بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔ مشینوں کی مدد سے فائبر کے ریشوں اور دیگر اشیا سے چمڑا بنانا ہی نہیں بلکہ مختلف اشیا تیار کرنا بھی بہت آسان ہے۔
مشینوں کی مدد سے تیار کرنے کی صورت بہت بڑے پیمانے پر پیداوار کی بدولت لاگت بھی کم آتی ہے اور یوں دنیا بھر میں مصنوعی چمڑا پسند اور استعمال کرنے والوں کی تعداد چند برس میں بہت تیزی سے بڑھی ہے۔
کراچی میں اس بار گائے کی کھال کے نرخ ہزار سے گیارہ سو روپے جبکہ بکرے کی کھال کے نرخ 450 روپے متعین کیے گئے ہیں۔ دنبے کی کھال 150 روپے تک میں فروخت ہوسکے گی جبکہ اونٹ کی کھال کے نرخ 500 یا اِس سے کچھ ہی زیادہ ہوں گے۔
جانوروں کی کھالوں سے چمڑا بنانے کا رجحان تیزی سے کمزور پڑ رہا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو مصنوعی چمڑے کی آمد ہے اور پھر یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ کھالوں سے چمڑا تیار کرنے کا عمل پیچیدہ، مہنگا اور آلودگی پیدا کرنے والا ہے۔ اصلی چمڑا چونکہ بہت مہنگا پڑتا ہے اس لیے اِسے استعمال کرنے والوں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے۔
پنجاب میں گائے کے کھال کی قیمت 1800 روپے سے 2000 روپے تک مقرر کی گئی ہے تاہم یہ بھی چند برس پہلے کی قیمت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب فلاحی ادارے کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے غیر معمولی جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ؎ دس سال پہلے گائے کی کھال کے چار چار ہزار روپے ملا کرتے تھے۔ روپے کی قدر اور قیمتِ خرید کے تناظر میں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے تو وہ رقم آج کے کم و یش 10 تا 12 ہزار روپے کے برابر تھی۔
کھالوں سے چمڑا بنانے کے کارخانے (ٹینریز) بھی اب دم توڑتے جارہے ہیں۔ کھال کو چمڑا بنانے کا عمل محنت طلب بھی ہے اور اِس میں لاگت بھی بہت آتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کارخانوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔
کراچی نے وہ دور بھی دیکھا ہے جب قربانی کی کھالوں کے حصول کا معاملہ سیاسی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان چھینا جھپٹی تک پہنچ جاتا تھا۔ سیاسی گروپوں میں قربانی کی کھالوں کے لیے کشمکش اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ معاملات قربانی کے جانور کی کھال کی پرچی پہلے سے کاٹنے تک پہنچتے تھے اور اس پر لڑائی بھی ہوا کرتی تھی۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی سیاسی گروپ کھال پہلے سے بک کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا اس کا مخالف گروپ قربانی کے جانور کو گولی مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا تھا۔
Comments are closed on this story.