’ ٹریس ہونے والوں کو بلا کر بیانات لیے تو آدھی حکومت اور آفیشلز پراسیکیوٹ ہو جائیں گے’
جبری گمشدگی کیس کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ ٹریس ہونے والوں کو بلا کر بیانات لیے تو آدھی حکومت اور آفیشلز پراسیکیوٹ ہو جائیں گے، گمشدگی پر اب اداروں کے سربراہوں کو طلب کریں گے، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات سے اداروں کے نہیں بلکہ ملک کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ لاپتہ طلبہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک صرف لاپتہ افراد کی بازیابی پر دھیان دیا۔ کبھی اس سے آگے نہیں گئے۔ ٹریس ہونے والوں کو بلا کر بیانات لیے تو آدھی حکومت اور آفیشلز پراسیکیوٹ ہو جائیں گا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے لاپتا شہری خواجہ خورشید کی بازیابی کی درخواست پر سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔ عدالت نے سیکرٹریز، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف آئی اے سے معلومات لے کر رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ سیکریٹری دفاع راولپنڈی، اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے سیکٹر کمانڈرز سے رپورٹ لے کر آگاہ کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شہری کی اہلیہ خلیفہ خورشید کی درخواست پر احکامات جاری کیے۔ یہ بات عدالت کے علم میں لائی گئی کہ خواجہ خورشید نے وادی نیلم سے آزاد کشمیر اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا۔
درخواست گزار کے وکلا نے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی تھی جسے جسٹس محسن اختر کیانی نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ سے رپورٹ آنے تک نوٹس جاری نہیں کیے جاسکتے۔
جسٹس کیانی کا کہنا تھا کہ پالیسی بنانے والوں کو ردِعمل کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ بدقسمتی سے اب عدالتوں کی ذمہ داری لاپتا افراد کی بازیابی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ اگر راشد حسین 2019 میں دبئی سے پاکستان آیا تھا تو اسے ڈھونڈ نکالنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دبئی سے آنے کے بعد سے راشد حسین کا کچھ پتا نہیں۔ جسٹس کیانی نے کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
Comments are closed on this story.