خوشبو کی بیٹی ہر روز مجھے کہتی ہے ’میری مما کو کال کرو‘
خوشبو کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میری پہلی نظر سامنے دیوار پر لگے تین فریموں پر پڑی۔
LET THE MUSIC PLAY
EVERYTHING WILL BE OK
I MA NOT ARUGING .I AM EXPLANING ,WHY I AM RIGHT
بظاہر بہت سادہ اور عام سی باتیں جو آپکو اکثر گھروں کی دیواروں پر فریم میں لگی نظر آتی ہیں لیکن نجانے کیوں میں اس میں کھو سی گئی۔
سوات میں طالبان کے ہاتھوں قتل کی جانے والی شبانہ سے لے کر آج خوشبو تک کی کہانی میں مجھے ایک ہی چیز مشترک نظر آئی اور وہ تھی عورت کی بے بسی۔
وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ کیسے جینا چاہتی ہے۔ کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ یہ طے کرنا اُس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ وہ موسیقی کی دُھنوں پر تھرکتی ضرور ہے لیکن جو سُر اُسکے دل کی تاروں کو چھوتے ہیں اُنکی لے پر جانے کی اُسے اجازت نہیں ہوتی ۔معاشرہ اُسے صرف اُس وقت تک جینے دیتا ہے جب تک وہ اس کی تال پر تھرکتی ہے لیکن جہاں اس نے اپنے دل کی سننے کی کوشش کی ۔۔وہاں بندوق کی گولی اسکا مقدر بن جاتی ہے۔
شبانہ ،غزالہ جاوید ،مسکان ،رابعہ تبسم اور صبا گل سمیت کئی اور خواتین پشتوآرٹسٹ کے قتل کی داستانیں رقم کرتے کرتے دو دہائیاں بیت گئیں لیکن نہیں بدلی تو قاتل کی سوچ اور مقتولہ کی خواہش۔
اور وہی خواہش آج مجھے خوشبو کے کمرے کی دیوار کے فریم پر سجی نظر آئی۔
LET THE MUSIC PLAY
خوشبو کون تھی؟
صوابی سے تعلق رکھنے والی خوشبو پشاور میں آکر بس گئی۔ رقص اور موسیقی کے شعبے سے وابستہ اس خاندان کی تین خواتین آرٹ کے شعبے میں آئیں اور اپنی ایک پہچان بنائی۔ خوشبو کی بہن منیبہ نے آج ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سال قبل خوشبو کی ایک افغان شہری سے شادی ہوئی جسمیں اُسکی ایک بیٹی بھی ہے جسکی عمر تین سال کے لگ بھگ ہے لیکن بعد میں خوشبو نے اس شخص سے طلاق لے لی اور والدین کے ساتھ پشاور میں ایک گھر میں رہنے لگی ۔رقص اور موسیقی کی محفلوں میں اپنے آرٹ کا مظاہرہ کرنا اُسکا شوق بھی تھا اور روزی روٹی کا زریعہ اور اُسی سے وہ اپنی بیٹی کی پرورش کرتی تھی
ملزم شوکت سے پہچان کیسے ہوئی؟
خوشبو کی بہن منیبہ نے بتایا کہ خوشبو کی ایک کنسرٹ کے دوران ملزم شوکت سے ملاقات ہوئی تھی ۔ “وہ ایک میوزک کنسرٹ میں ملے اور دوست بن گئے۔ شوکت نے خوشبو کو کئی بار شادی کے لئے پروپوز بھی کیا لیکن خوشبواُس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی جس پر شوکت نے کئی بار خوشبو کو ڈرایا دھمکایا بھی ۔منیبہ کے مطابق ”ایک بار تو شوکت نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر خوشبو نے اُس سے شادی نہیں کی تو وہ اسے قتل کر دے گا۔“
جس کے بعد خوشبو کے گھر والوں نے شوکت کے خلاف پولیس میں ایک روپورٹ درج کرائی لیکن بعد شوکت نے لکھ کر دے دیا کہ وہ خوشبو کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اسکا ذمہ دار وہ ہو گا جس کے بعد معاملات ٹھیک ہوگئے۔
قتل کی رات کیا ہوا؟
منیبہ کے مطابق ہر ویک اینڈ پر گانے کی محفلیں ہوتی ہیں تو اُس روز بھی شوکت خوشبو کو سالگرہ کی تقریب کے بہانے لے گیا۔منیبہ نے بتایا کہ “خوشبو کے جانے کے بعد میں نے اسے فون کیا کہ اور پوچھا کہ کیا سب ٹھیک ہے تو اس نے بتایا کہ ہاں سب ٹھیک ہے اور اپنی کچھ وڈیوز اور تصاویر بھی بھیجیں کہ وہ کہاں ہے “
آج ڈیجیٹل کو دکھائی گئی ان تصاویر اور وڈیوز میں ایک بیڈ روم کا منظر تھا جسمیں خوشبو ایک بیڈ پر بیٹھی تھی ۔
منیبہ نے کہا ہم مطمن ہوگئے کہ سب ٹھیک ہے لیکن ’’اگلی صبح ہمیں خوشبو کے قتل کی اطلاع ملی اور جب اسکی لاش کی تصاویر سامنے آئیں تو وہ اُسی بیڈ شیٹ میں لپٹی ہوئی ملی جو تصاویر میں بیڈ پر بچھی نظر آئی تھی “
نوشہرہ پولیس کا مؤقف
ایس ایچ او اکبر پورہ نیاز محمد نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ ”لاش ملنے کے بعد پولیس نے واردات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے تاہم عدالت نے ملزمان کو ضمانت قبل از گرفتاری دے دی اور اب پولیس انہیں گرفتار نہیں کر سکتی۔ بی بی اے کی درخواست کی سماعت کی اگلی تاریخ پر اگر عدالت ضمانت مسترد کرتی ہے تو ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا، اور بعد میں پولیس مجسٹریٹ عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ اور مزید تفتیش کے لیے درخواست کرے گی“۔
پشتون آرٹسٹ خواتین کو تحفظ دینے والا کوئی نہیں
روتی بلکتی منیبہ نے شکوہ کیا کہ پختونخوا میں خواتین آرٹسٹ کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے لیکن انکو انصاف دینے والا کوئی نہیں ۔اگر ایک مجرم کو سزا مل جاتی تو پھر کسی کی ہمت نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے ہم فنکاروں کے ساتھ کوئی نہیں ہے ۔منیبہ نے خدشے کا اظہار کیا کہ مجھے لگتا ہے کہ خوشبو کو بھی انصاف نہیں ملے گا کیونکہ اسکا قاتل ابھی تک آزاد پھر رہا ہے اور پولیس بھی اسی کے ساتھ ملی ہوئی ہے
”یہ تو عجیب بات ہے کہ آپ کسی کو مار دو اور پھر ضمانت بھی کروا لو“۔اُس نے کہا
منیبہ نے بتایا کہ خوشبو کی بیٹی ہر روز مجھے کہتی ہے کہ “ میری مما کو کال کرو لیکن میں اُسکی ماں کہاں سے لاوں ۔۔یہ کیسا پاکستان ہے کہ جہاں انصاف نہیں ملتا“
Comments are closed on this story.