’ہم‘ کو ایک شخص یاد آئے گا، موٹر مکینک سے شہنشاہِ غزل بننے والی ہستی کی کہانی
شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں کو ہم سے بچھڑے 12 برس بیت گئے۔ نارتھ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں ابدی نیند سونے والے مہدی حسن کے بارے میں بھارت کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر نے کہا تھا کہ اُن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔
مہدی حسن کو شہنشاہِ غزل بننے کے لیے بے مثال تربیت اور مشق کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ کتبے کے مطابق مہدی حسن 28 جون 1933 کو بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جھنجھنو میں پیدا ہوئے۔
موسیقی کی ابتدائی تربیت اپنے والد عظیم خاں اور چچا اسماعیل خاں سے حاصل کی۔ ان کی تربیت میں کلیدی کردار ان چچا اور بڑے بھائی پنڈت غلام قادر خان نے ادا کیے۔ انہوں نے سانس مضبوط کرنے کے لیے کئی سال تک روزانہ پانچ گھنٹے ورزش اور پانچ گھنٹے گائیکی کا ریاض کیا۔
مہدی حسن اپنے والدین کے ساتھ قیامِ پاکستان سے آٹھ دس ماہ قبل ہی ساہیوال آگئے تھے۔ وہاں انہوں نے ابتدائی زمانہ شدید عسرت کے عالم میں گزارا۔ انہوں نے سائیکل کے پنکچر کی دکان بھی کھولی اور بعد میں موٹر مکینک کا کام بھی سیکھا۔ اس ہنر میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو منوایا۔
مہدی حسن اپنے خاندان کی سولھویں پشت ہیں۔ گائیکی کی دنیا میں اُن کا خاندان کلاونت کہلاتا ہے۔ مہدی حسن نے پہلی پرفارمنس آٹھ سال کی عمر میں مہا راجہ بڑودا (گجرات، بھارت) کے دربار میں دی تھی۔ انہوں نے جوان ہونے پر نیپال کے شہنشاہ کے سامنے بھی پرفارم کیا۔ مہدی حسن کے دادا نے نیپال کے شہنشاہ کو موسیقی کی تربیت دی تھی۔
مہدی حسن نوجوانی میں دوستوں کی محفل میں طلعت محمود کے گانے گایا کرتے تھے۔ شادی کی ایک تقریب میں جب انہوں نے طلعت محمود کے دو تین گانے گائے تو موسیقار رفیق غزنوی نے اُنہیں سُنا اور متاثر ہوئے۔ انہوں نے مہدی حسن کو ”شکار“ نامی فلم کے لیے گانے کی دعوت دی۔
یہ فلم تو کبھی نہ بن سکی تاہم اُن کے گائے ہوئے گیت ”میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے“ اور ”نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہوجائے“ مقبول ہوئے اور مہدی حسن کی آمد کو محسوس کرلیا گیا۔ یہ دونوں گیت قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کے لکھے ہوئے تھے۔
1958 میں مہدی حسن نے ریڈیو پاکستان کراچی میں آڈیشن دیا جو پانچ گھنٹے جاری رہا۔ اس آڈیشن کی بنیاد پر انہیں اے کیٹیگری سے نوازا گیا۔ مہدی حسن کئی سال تک ریڈیو پاکستان کراچی اور ریڈیو پاکستان لاہور سے گاتے رہے۔ اس دوران نے انہوں نے اپنی آواز کو مضبوط بنایا۔ ابتدا میں ان کی آواز پتلی تھی اور وہ جس انداز سے گاتے تھے اس سے جی ایم درانی، منیر حسین، عنایت حسین بھٹی، علی بخش ظہور اور دیگر گلوکاروں کا فن جھلکتا تھا۔
1956 سے 1962 تک انہوں نے صرف 7 گانے گائے مگر ہمت نہ ہاری اور محنت کرتے رہے۔ 1962 میں اُن کے دو گیت ”الٰہی! آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے“ اور ”جس نے مرے دل کو درد دیا“ ہٹ ہوئے تو انہیں فلمی دنیا میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ پھر انہوں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔
مہدی حسن نے کئی مواقع پر بتایا کہ وہ 50 ہزار سے زیادہ گانے گاچکے ہیں۔ ایک بار انہوں نے اپنے آئٹمز کی تعداد 54 ہزار بھی بتائی۔ یہ بات اُنہوں نے یقیناً اپنی سادہ لوحی کی بنیاد پر کہی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ انہوں تقریباً دو ہزار آئٹم گائے۔ فلمی دنیا میں تین عشرے گزارنے پر بھی اُن کے گائے ہوئے گیتوں کی تعداد 650 تک رہی۔ اِسی طور ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اُن کے آئٹم مجموعی طور پر ہزار سے زیادہ نہیں۔ پرائیویٹ کیسٹوں کی شکل میں مزید 400 گانے شامل کیے جائیں تو اُن کے آئٹمز کی مجموعی تعداد 2 ہزار سے زیادہ نہیں بنتی۔ ہاں، اُن کے فن میں چونکہ پختگی بہت تھی اس لیے اُن کے بعض آئٹم دوسروں کے گائے ہوئے سیکڑوں آئٹمز پر بھاری تھے۔
یاد رہے کہ گانوں کی تعداد کے بارے میں کبھی محمد رفیع اور لتا منگیشکر کے درمیان اختلاف رونما ہوا تھا۔ محمد رفیع نے لتا منگیشکر کی طرف سے بلند بانگ دعوے کے بعد کہا کہ وہ بھی 26 ہزار گانے گاچکے ہیں جبکہ فلموں میں اُن کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد 6 ہزار تک ہے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے ایک آدھ درج گانے گائے۔ وہ پرائیویٹ کیسٹیں بھی نہیں کرتے تھے۔
خیر، مہدی حسن کا کمال یہ تھا کہ وہ فلمی اور غیر فلمی دونوں ہی طرح کے گائے پوری مہارت اور دل جمعی سے گاتے تھے۔ انہوں نے اپنے فن سے ہمیشہ انصاف کیا اور محفل کی گائیگی میں زیادہ سے زیادہ جگہیں بنانے اور بہلاوے دینے پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے کئی مقبول ترین غزلوں کے ایس ورژن گائے جو بیس سے تیس منٹ تک کے تھے۔
مہدی حسن کلاسیکی موسیقی پر غیر معمولی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کے زمانے میں ٹھمریاں بھی گائیں اور فن کے استادوں سے داد پائی۔ موسیقی کے تسلیم شدہ استاد اُن کا بھرپور احترام کرتے تھے۔
مہدی حسن نے سِکھانے پر بھی خاص توجہ دی۔ اُن کے بیٹوں میں آصف مہدی مرحوم اچھا گاتے تھے۔ بڑے بیٹے عارف مہدی مرحوم طبلہ نواز تھے۔ عمران مہدی بھی طبلہ نواز ہیں اور خوب نام کمایا ہے۔ کامران مہدی نے بھی والد سے سیکھا اور اب تک گارہے ہیں۔ طارق مہدی کے بارے میں خود مہدی حسن نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ گائیکی میں آگے بڑھیں گے مگر وہ بوجوہ زیادہ آگے نہ جاسکے۔
جنوبی ایشیا کا شاید ہی کوئی بڑا گلوکار ہو جو اُن کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے اکتسابِ فن کا انکاری ہو۔ جگجیت سنگھ اُن کے قدموں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ طلعت عزیز نے اُن کی باضابطہ شاگردی اختیار کی۔ اُن کے شاگردوں میں اِکرام مہدی کی مشق اچھی ہے۔
مہدی حسن کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ دل کے بڑے تھے اور کسی سے بلا جواز خوف نہیں کھاتے تھے۔ معروف گلوکار مجیب عالم کی آواز اُنہیں اچھی لگی تو اُنہیں اپنے ساتھ لاہور لے گئے اور موسیقاروں سے ملوایا۔ کسی نے کہا جناب، آپ اپنے پیروں پر کیوں کلہاڑی مار رہے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لڑکا آگے نکل جائے۔ اِس پر شہنشاہِ غزل نے کہا تھا جو کچھ اللہ نے مجھے دیا ہے وہ بھی بہت ہے اور یوں بھی ہر انسان کو نصیب کا ملتا ہے۔ مزید کہ میری پوزیشن تو اب تسلیم شدہ ہے، اگر کوئی اور بھی کچھ کھا کمائے گا تو مجھے کیا فرق پڑے گا۔
Comments are closed on this story.