Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

بکرا نامہ : جانور کی خریداری کا جاں گُسل مرحلہ

تابڑ توڑ مہنگائی کے اس دور میں قربانی کا فیصلہ کرنے پر آپ کے لیے داد تو بنتی ہی ہے
شائع 13 جون 2024 04:44pm

پاکستان میں عام آدمی سال بھر، بلکہ زندگی بھر قربانیاں دیتا رہتا ہے مگر افسوس کہ ان قربانیوں کو کسی قطار شمار میں نہیں رکھا جاتا۔ اس کا دُکھ اس وقت دوچند ہو جاتا ہے جب سال میں ایک بار ذبح ہونے والے جانوروں کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور ان کی ایک بار کی قربانی کے تذکرے کا بازار مہینوں گرم رہتا ہے!

اگر آپ نے قربانی کا جانور خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو آپ کی ہمت کی داد دینا ہی پڑے گی کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جانور خرید کر ذبح کرنے کے تصور ہی سے گلے پر چُھری پھرتی محسوس ہوتی ہے!

ویسے ہمارے مال کی آزمائش کے معاملے میں عیدالفطر بھی خیر سے کم نہیں۔ عید الفطر اب بیشتر پاکستانی اہل ایمان کو فطرہ وصول کرنے کی سطح تک لے آتی ہے! عید کا چاند دن میں تارے دکھا دیتا ہے مگر خیر انسان جان سے تو نہیں جاتا۔ ہاں، عیدِ قرباں مکمل قربان کرکے، کھال میں بُھوسا بھرکے چھوڑتی ہے!

اہل ایمان اور بالخصوص شادی شدہ اہل ایمان کے لئے تو قربانی خیر سے سال بھر کا ایونٹ ہے کہ وہ وقت بے وقت کسی جواز کے بغیر ذبح ہوتے رہتے ہیں! یہ گویا ’ذبیحہ جاریہ‘ ہوا۔

سال بھر ذبح ہوتے رہنے والے دو ٹانگوں والے جانوروں کو اس بات کا شکوہ رہتا ہے کہ ان کی وہ توقیر نہیں جو قربانی کے روایتی جانوروں کی ہے! ان کا شکوہ بجا ہے۔ ہم چونکہ شادی شدہ ہیں اِس لیے ہر شادی شدہ انسان کی قربانیوں کو سمجھتے ہیں اور اُسے گھاس ڈالتے ہیں یعنی عزت دیتے ہیں!

جیسے ہی عید الاضحیٰ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، گھر والے قربانی کے جانور کے لیے، دیسی گویّوں کی طرح، وقت بے وقت فرمائشی راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں!

بچے اٹھتے بیٹھتے پوچھتے رہتے ہیں ”امی! ہمارے ہاں قربانی کا جانور کب آئے گا؟“ اور ماں انھیں ہر روز حقیقت پسندانہ تسلّی دیتی ہے ”بیٹا! شام کو دفتر سے آئے گا!“ قربانی کا یہ جانور روزانہ گھر آتا ہے مگر بچے بے چارے معصوم ہوتے ہیں، ان کی نظر میں قربانی کا جانور وہ ہے جس کے سینگ اور دُم ہو اِس لیے قربانی کے غیر روایتی جانور کو وہ شناخت نہیں کر پاتے!

بچوں کو کیا معلوم کہ حالات کا مقابلہ کرتے کرتے ”ابّوؤں“ کی دُمیں جھڑ چکی ہیں! اور رہے سینگ؟ تو بچوں کو اب کون سمجھائے کہ گدھوں کے سر پر بھی کہیں سینگ ہوا کرتے ہیں!

جب بچوں کی ضد بڑھ جاتی ہے تو خاتون خانہ بھی روزانہ بچوں کی طرح ضد کرنے لگتی ہیں “اجی! آپ جانور کب لائیں گے؟

شوہر بے چارہ اُلجھ جاتا ہے کہ اہلیہ کی بچگانہ ضد یا فرمائش کیا جواب دے؟ اگر وہ کہتا ہے ”کیا اپنے سُسرال سے کوئی جانور لے آؤں؟“ تو بیگم ناراض ہوتی ہیں۔ اور اگر شوہر کہتا ہے ”اب مُجھی کو ذبح کر ڈالو“ تو بیگم کہتی ہیں ”کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟ گدھوں کی صرف کمائی جائز ہے، قربانی نہیں!“

لیجیے صاحب، گھر والے حسب روایت اِس بار بھی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوئے (ظاہر ہے یہ تو ہونا ہی تھا اور یہ تو ہوتا ہی ہے!) اور آپ جیسے تیسے مزید قربانی دینے یعنی قربانی کا جانور خریدنے کے لیے راضی ہوگئے!

ہر سال یہی تو ہوتا ہے۔ پہلے آپ آنا کانی کرتے ہیں اور پھر اچانک راضی ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ میں ”سیاسی اداکاری“ اور ”سفارت کاری“ کے جراثیم بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں! اب آپ اِس اداکاری میں خاصی مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ ایک بار پھر خربوزے کی طرح چُھری پر گرکر آپ نے ثابت کردیا کہ شریف آدمی کے لیے اُس کے اہل خانہ ہی سب کچھ ہوتے ہیں اور اُن کی خوشی کے لیے وہ اپنی محنت کی کمائی کے گلے پر بار بار چُھری پھیر کر بھی بے مزا نہیں ہوتا!

اب آپ جانور خریدنے جارہے ہیں۔ یہ بھی بڑا عجیب لمحہ ہے۔ آپ کے گھر کے سامنے خاصی بھیڑ ہے۔ لوگ پہلے تو ٹھٹھک جاتے ہیں مگر جب انہیں پتا چلتا ہے کہ آپ قربانی کا جانور خریدنے جارہے ہیں تب ہونٹوں پر تبسم کی کلیاں چٹکنے لگتی ہیں۔

رسموں کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اللہ بخشے، تین مرتبہ تو آپ کی نظر اتاری جاچکی ہے۔ گھر کے علاوہ خاندان اور محلے کی بڑی بوڑھیوں کا مینا بازار سا لگا ہے اور وہ کئی دعائیں پڑھ کر آپ پر دم کر رہی ہیں۔ آپ کو خواہ مخواہ یہ احساس ہو رہا ہے کہ آپ کی بھی کچھ ویلیو ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ اوراد و وظائف اور جھاڑ پُھونک صرف اس لیے ہے کہ منڈی میں آپ جانور بیچنے والوں کے جھانسے میں نہ آئیں!

ایک تعویذ اس بات کے لیے بھی باندھا جارہا ہے کہ جو بولی آپ لگائیں وہ بلا حیل و حجت قبول کرلی جائے! آج کل یہ کام تعویذ سے لیا جارہا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ آنے والے دور میں اس مقصد کے لیے کسی مستند اور ”پہنچے ہوئے“ عامل بابا سے اُلّو کا عمل کرانا پڑے تاکہ آپ جانوروں کی منڈی میں اُلّو بننے سے محفوظ رہیں!

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی خریداری میں ٹھگ لیے جانے پر بھی انسان سچ نہیں بولتا اور اپنی عزت بچانے کے لئے قیمت کم بتاتا ہے تاکہ لوگ شک نہ کریں اور رشک کی نظر سے دیکھیں!

موقع اور حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ احتیاطاً دو چار دوائیں بھی ساتھ رکھتے ہیں تاکہ جانوروں کی (انتہائی غیر متوقع یعنی خاصی بلند) قیمت سُن کر غش آجائے اور احساس کمتری سے دل بیٹھنے لگے تو اُسے سنبھالا جاسکے!

قربانی کا جانور منتخب کرنا اور خریدنا ایک ایسا فن ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نکھار آتا جارہا ہے۔ اب تک یہ فن سینہ بہ سینہ چلتا آیا ہے مگر ممکن ہے بہت جلد اس موضوع پر کتابیں بھی بازار میں دست یاب ہوں!

اگر ہم مغرب کے نقش قدم پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب قربانی کے جانوروں کو سمجھنے کے لیے حیوانیات اور جانوروں کے بیوپاریوں کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے ماہرین سے مشاورت لازمی سمجھی جائے گی!

یہ بھی اللہ کا احسان ہے کہ جانوروں کی خرید و فروخت کے بیشتر ماہرین لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ورنہ اُن کی بیان اور تحریر کردہ داستانوں سے ڈائجسٹوں کے صفحات بھرے پڑے ہوتے!

ہمارے ایک دوست فکشن رائٹر ہیں۔ عیدِ قرباں نزدیک آتی ہے تو یہ مویشی منڈی کے دو چار چکر ضرور لگاتے ہیں اور وہاں جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اسے تین چار ماہ تک کہانیوں کی شکل میں بیان کرکے فکشن کی دنیا میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرتے ہیں!

اگر آپ نے سر عام قربانی کا جانور خریدنے کا ارادہ ظاہر کردیا تو سمجھ لیجیے اپنی موت کو یعنی مفت مشورہ دینے والوں کو دعوت دے دی! بہت سے لوگ مفلسی کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں مگر خود ان پر دوسروں کے لیے جانور پسند کرنے کا خبط سوار رہتا ہے!

جس طرح چاند سی دلہن تلاش کرنے کی عظیم ذمہ داری بالعموم وہ عورتیں اپنے سر لے لیتی ہیں جن میں حسن برائے نام بھی نہیں پایا جاتا بالکل اُسی طرح جانوروں کے دانت چیک کرنے کا فن اُنھیں خوب آتا ہے جن کے منہ میں دانت نہیں ہوتے!

اور اگر مشورہ دینے والوں کی بہتات ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ آپ کو قربان ہونا تو یقیناً آتا ہے مگر قربانی کا جانور خریدنا شاید ہی آتا ہو! بعض افراد قربانی کا جانور خریدنے کے معاملے میں واقعی اس قدر اناڑی پن دکھاتے ہیں کہ لگتا ہے گائے کو گدھا خرید رہا ہے!

اگر آپ اپنے بارے میں اس نوعیت کا کوئی تاثر دینے سے بچنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ چند ”منڈی دیدہ“ شخصیات کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے نکلیں۔ ویسے منڈی میں بھی ”رضا کاروں“ کی کمی نہیں ہوتی۔ ایک کپ چائے کے عوض یہ لوگ آپ کو دنیا بھر کے جانوروں کی خصوصیات گنوا سکتے ہیں! اِن خصوصیات کو سُن کر آپ اپنے آپ کو کس حد تک کمتر محسوس کرسکتے ہیں اِس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا!

تحریر : ایم ابراہیم خان

٭٭٭

family

QURBANI KE BAKREY

EID E QURBAAN

DECCISION

AAPLAUSE FOR YOU