ایسا کنکریٹ جو توانائی کو ذخیرہ کرکے پورے گھر کو بیٹری میں بدل سکتا ہے
ماہرین نے ایسا کنکریٹ تیار کیا ہے جو قابل تجدید توانائی کو اپنے اندر جذب کرکے محفوظ رکھ سکتا ہے اور یوں پورا گھر بیٹری میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر میں توانائی کے ایسے ذرائع تلاش، دریافت اور ایجاد کیے جارہے ہیں جو قابلِ تجدید ہوں یعنی اُن سے توانائی تواتر کے ساتھ حاصل ہوتی رہے۔ روایتی طریقوں سے بجلی تیار کرنے کی صورت میں خام مال صرف ہوکر کچرے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً پیٹرول، ڈیزل یا کوئلے سے بجلی بنانے کی صورت میں یہ تینوں چیزیں کچرے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔
ہوا، پانی اور سورج کی روشنی سے بجلی تیار کرنے کے طریقوں کو مقبولیت اس لیے حاصل ہو رہی ہے کہ اس طور حاصل ہونے والی بجلی خام مال کو کچرے میں تبدیل نہیں کرتی اور تواتر سے بجلی حاصل ہوتی رہتی ہے۔
ماہرین ایسا پینٹ بھی تیار کرچکے ہیں جو سولر پینل کی طرح کام کرتے ہوئے دھوپ پڑنے پر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (امریکا) کے ماہرین اب ایسا کنکریٹ مارکیٹ میں لانے کی تیاری کر رہے ہیں جو بجلی یا توانائی جذب کرکے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یوں توانائی بڑے پیمانے پر حاصل کرتے رہنے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایم آئی ٹی کے محقق ڈیمین اسٹیفینیوک اور ان کے ساتھیوں نے پانی، سیمینٹ اور کاربن بلیک کی مدد سے ایک ایسا مرکب تیار کیا ہے جو بالعموم کاروں کے ٹائر تیار کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
یہ مٹیرل سُپر کیپیسیٹر کے طور پر کام کرے گا۔ سُپر کیپیسیٹر عمومی سطح پر لیتھیم آین بیٹریز کی طرح طویل المیعاد اسٹوریج کے لیے موزوں نہیں تاہم یہ تیزی سے ری چارج ہوتے ہیں اور توانائی بھی تیزی سے صرف کرتے ہیں۔ اِس صورت میں یہ روایتی بیٹری کا نعم البدل ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسٹیفینیوک اور اُن کے ساتھیوں کو یقین ہے کہ یہ نیا مٹیریل گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے یعنی گرین انرجی کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرکے الیکٹرک گرڈ پر دباؤ گھٹا سکتا ہے۔ گرین انرجی کے حصول کا معاملہ نشیب و فراز کا شکار رہتا ہے۔ اُسے ذخیرہ کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نئے کنکریٹ سے یہ مسئلہ بخوبی حل ہوسکتا ہے۔
ماہرین کا دعوٰی ہے کہ نئے کنکریٹ سے بنائی ہوئی سڑکیں کاروں کی بیٹریز کو ری چارج کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں اور یہ عمل وائرلیس ہوگا۔ اسٹیفینیوک کا کہنا ہے کہ یہ مٹیریل مکانات کی تعمیر میں بھی عمدگی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ توانائی کو جذب کرکے محفوظ رکھنے کی صورت میں پورے گھر کو بیٹری میں تبدیل کرسکتا ہے۔
خیر، یہ ٹیکنالوجی ابھی شیرخوارگی کی منزل میں ہے۔ اس وقت یہ ٹیکنالوجی توانائی کو بہت چھوٹے پیمانے پر ذخیرہ کر پاتی ہے۔ مثلاً 10 واٹ کے ایل ای ڈی بلب کو 30 گھنٹے تک روشن رکھنا۔ سُپر کیپیسیٹرز چونکہ توانائی تیزی سے صرف کرتے ہیں اس لیے ماہرین کو ابھی بہت سے مشکلات پر قابو پانا ہے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی بھی گھر اپنی یومیہ ضرورت کے مطابق توانائی ذخیرہ کرسکے گا۔ اس کا 1590 مکعب فٹ کا ورژن تیار کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں :
ماہرین نے توانائی کی پیداوار بڑھانے کیلئے باریک سولر سیل بنالیے
ٹیز سائڈ یونیورسٹی میں انجینیرنگ کے پروفیسر مائیکل شارٹ کہتے ہیں کہ جب بھی کسی نئی ٹیکنالوجی کو بہت بڑے پیمانے پربروئے کار لانے کی بات آتی ہے تو بہت سی مشکلات اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ مینوفیکچرنگ میں الجھنوں کا سامنا ہوتا ہے۔ وسائل کی کمیابی بھی پریشان کرتی ہے۔ اور کبھی کبھی متعلقہ ٹیکنالوجی سے متعلق فزکس اور کیمسٹری بھی پیچیدگیوں سے دوچارہوتی ہے۔
Comments are closed on this story.