دنیا کا وہ ساحل سمندر جہاں صرف ڈھانچے موجود ہیں
ساحل سمندر اکثر تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم کچھ مقامات ایسے بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں جہاں انسان خوف کھاتا ہے۔
افریقی ملک نمیبیا میں موجود صحرا اور ساحل سمندر خوف کی علامت بنا ہوا ہے، اس کی ایک بری وجہ موت کا منظر ہے جو کہ ڈھانچوں کی صورت میں خوف کی علامت بنا ہوا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نمیبیا کا صحرا اور ساحل سمندر کو جہنم کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ جاندار اور غیر جاندار ہر ایک کے ڈھانچے یہاں موجود ہیں۔
جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق مقامی افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ خدا کی جانب سے اس زمین کو غصے میں بنایا گیا تھا، مقامی افراد اس جگہ پر آنے سے بھی خوف کھاتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہاں آنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
تصویر بذریعہ: گوگل
صحرا گہرے سمندر کے قریب ہونے کے باعث یہاں دیوہیکل سمندری جہازوں کے پرزے اور ڈھانچے بھی موجود ہیں، جو کہ صدیوں سے یہی پر اپنی داستان آنے والوں کو بذریعہ حالت بتا رہے ہیں۔
نریندر مودی کی تقریب حلف برداری کے دوران ’چیتے کی چہل قدمی‘
دوسری جانب ڈیلی سن کے مطابق ساحلی علاقہ اور سمندر کے پانی کا پیچھے ہٹھنے کے باعث یہاں موجود کشتیاں اور سمندری جہاز اپنی جگہ پر ساکن ہو گئے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اس صحرا کو لگتا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے، یعنی ایک طرف صحرا جہاں آدم نہ آدم ذات اور دوسری جانب سمندر جس کی آواز ہی خوف پیدا کررہی ہوتی ہے۔
تصویر بذریعہ: انٹرنیٹ
نمیبیا کا یہ ساحل دراصل جنوبی اٹلانٹک اوشین پر لگتا ہے، جبکہ اسے اسکیلیٹن کوسٹ یعنی ڈھانچوں والا ساحل بھی کہا جاتا ہے، مقامی طور پر دنیا کا آخری کنارہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سمندر میں بہہ جانے یا لاپتہ ہونے جانے والے افراد کو سمندر لاش یا ڈھانچوں کی صورت میں یہی پر پھینکتا ہے۔
ایران میں خلائی مخلوق کی آمد؟ ویڈیو نے تہلکہ مچادیا
ڈیلی سن کے مطابق 1904 میں متعدد مسافروں سے لدی کشتیاں ڈوب گئی تھیں، جن کی باقیات کے کچھ حصے آج بھی اس ساحل پر موجود ہیں۔
تصویر بذریعہ: گلینا گارڈن
دوسری جانب نیو یارک ٹائمز کے مطابق 1800 کے وقت کے ڈھانچے بھی اسی ساحلی علاقے میں موجود ہیں، سینڈوچ ہاربر پر موجود یہ ڈھانچہ وہیل کا ہے، جبکہ کئی وہیل مچھلیوں کی باقیات دوسری جنگ عظیم کے باعث ختم ہو گئیں۔ تاہم کچھ کے ڈھانچے اب بھی موجود ہیں۔
Comments are closed on this story.