Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ایران: شوریٰ نگہبان نے صدارتی امیدواروں کی منظوری دے دی، احمدی نژاد الیکشن سے باہر

شوریٰ نے حکمرانی میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے کسی بھی شخص یا خاتون کو انتخاب لڑنے کا موقع نہ دینے کی روایت اس مرتبہ بھی برقرار رکھی
شائع 09 جون 2024 07:34pm

ایرن میں رواں ماہ منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے چھ امیدواروں کے ناموں کی منظوری دے دی گئی ہے۔

یہ منظوری ملک کی انتہائی بااختیار سمجھی جانے والی گارڈین کونسل نے آج اتوار کے روز دی۔

جن امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے، ان میں ایرانی پارلیمان کے سخت گیر اسپیکر بھی شامل ہیں۔

تاہم شوریٰ نگہبان نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے کاغذات نامزدگی ایک بار پھر مسترد کر دیے۔

سخت گیر خیالات رکھنے والے احمدی نژاد دو مرتبہ ایران کے صدر رہ چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ صدراتی الیکشن کے لیے بھی ان کے کاغذات نامزدگی کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی گزشتہ ماہ سات دیگر افراد کے ہمراہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں نئے صدارتی انتخابات اٹھائیس جون کو کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اسرائیل نے امدادی ٹرک استعمال کرکے 4 یرغمالی رہائی کرا لیے، 274 فلسطینی شہید، 698 زخمی

انتہائی طاقت ور شوریٰ نگہبان نے ملک کی حکمرانی میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے کسی بھی شخص یا کسی خاتون کو انتخاب لڑنے کا موقع نہ دینے کی روایت اس مرتبہ بھی برقرار رکھی۔

اس مرتبہ ملکی صدارتی انتخابی مہم میں ممکنہ طور پر ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے پر امیدواروں کے مابین براہ راست ٹیلی وژن مباحثے شامل ہوں گے۔

جن امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے، ان میں سب سے نمایاں ایرانی پارلیمان کے موجودہ اسپیکر باسٹھ سالہ محمد باقر قالیباف ہیں، جو تہران کے سابق میئر ہیں اور ان کے ملک کے طاقت ور ترین نیم فوجی دستوں پاسداران انقلاب سے قریبی تعلقات ہیں۔

حوثیوں نے اقوام متحدہ کے 11 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا

تاہم بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ پاسداران انقلاب کے ایک جنرل کے طور پر قالیباف 1999 میں ایرانی یونیورسٹی طلبا کے خلاف ایک پرتشدد کریک ڈاؤن کا حصہ تھے۔

انہوں نے مبینہ طور پر 2003 میں ملک کے پولیس سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے طلبا کے خلاف براہ راست گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا۔ قالیباف نے 2005 اور 2013 کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیکن ناکام رہے تھے۔

وہ 2017 میں ابراہیم رئیسی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی انتخابی امیدواری سے دستبردار ہو گئے تھے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ تب رئیسی صدارتی امیدوار بنے تھے مگر وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے ایک تقریر میں آئندہ کے کامیاب صدارتی امیدوار کے لیے ان خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، جن کو قالیباف کے حامیوں نے ممکنہ طور پر اسپیکر کے لیے سپریم لیڈر کی حمایت کا عندیہ قرار دیا تھا۔

اقوام متحدہ کا اسرائیلی فوج کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ، تل ابیب سیخ پا

اس کے باوجود کریک ڈاؤن میں قالیباف کے کردار کو ایران میں برسوں سے جاری بدامنی کی وجہ سے مختلف انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بدامنی کے ان واقعات میں 2022 میں مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے بھی شامل ہیں۔

مہسا امینی کو ملکی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر نامناسب طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا تاہم بعد میں دوران حراست ان کی موت ہو گئی تھی۔

نئے ایرانی صدر کے لیے ملک کی بیمار معیشت بھی عملاً بہتری لانا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

محمد باقر قاليباف کے علاوہ مسعود بزشكيان، مصطفىٰ بور محمدی، سعيد جليلی، علی رضا زاكانی اور امير حسين قاضی زاده ہاشمی شامل ہیں۔

Iran Elections

Iran Presidential Candidates