Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

الیکشن کمیشن میں الیکشن ٹریبونل تبدیلی کیس کا فیصلہ محفوظ

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے سماعت کی
اپ ڈیٹ 07 جون 2024 02:44pm

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق کیس کی سماعت کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 4 رکنی کمیشن نے کمیشن کی الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق درخواست کی سماعت کی، درخواست گزار مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری،انجم عقیل خان اور راجہ خرم نواز کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

شعیب شاہین نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزاروں کے دلائل غیر متعلقہ ہیں، الیکشن ٹربیونل نے لیگی ایم این ایز کو فیور دی، تعصب ثابت کرنے کے لیے جائز وجوہات بتانا ضروری ہیں، مفروضوں پر کیس ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔

عامر مغل کے وکیل فیصل چوہدری نے شعیب شاہین کے دلائل کو اپناتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ٹریبونل تبدیلی یا نظرثانی کا اختیار نہیں۔

الیکشن کمیشن کے پوچھنے پر فیصل چوہدری نے کہا کہ اگر کیس کسی دوسرے صوبائی ٹربیونل کو ٹرانسفرکرتے ہیں تو پینڈورا باکس کھل جائے گا، الیکشن کمیشن کو استعمال کیا جا رہا ہے، انتخابات میں آر اوز نے الیکشن کمیشن کے اقدامات کو برباد کردیا۔

بعد ازاں فیصل چوہدری کے دلائل مکمل ہونے پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ 4 جون کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کےٹربیونل کی تبدیلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دی تھیں۔

اسی روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

درخواست گزار طارق فضل چوہدری کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کوڈ آف سول پراسیجر (سی پی سی) کے مطابق ٹربیونل الیکشن کمیشن کے اختیارات کے ماتحت ہے، ایک امیدوار نے جیب سے دستاویز نکالی اور اسے ٹربیونل نے مان بھی لیا، میں ٹربیونل کی زبان پر نہیں جاؤں گا قانونی نقطے پر رہوں گا، ہم پیش نہیں ہوئے تو جرمانے شروع کردیے گئے، جو ریمارکس دیے گئے ان پر بھی بات نہیں ہوسکتی، فارم 45 جو پیش کیا گیا اس کو کراس چیک کرنے کے بجائے مان لیا گیا۔

یاد رہے کہ 3 جون کو اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعلان کردہ فاتحین نے وفاقی دارالحکومت کے واحد پول ٹربیونل کے سامنے زیر التوا انتخابی درخواستوں کو ’کسی دوسرے ٹریبونل‘ میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

یہ پیشرفت الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے ایک متنازع آرڈیننس جاری کیے جانے کے بعد سامنے آئی جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کے طور پر ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے لیےالیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا ہے۔

چونکہ اسلام آباد میں واحد ٹربیونل ہے اس لیے مقدمات کو دارالحکومت سے باہر منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

این اے 46، این اے 47 اور این اے 48 سے کامیاب قرار دیے گئے امیدوار انجم عقیل خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور راجا خرم شہزاد نے اپنی درخواستوں میں نہ صرف ان کے خلاف الیکشن پٹیشن کسی دوسرے ٹربیونل منتقل کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ ان کی درخواستوں کے حتمی نتائج آنے تک الیکشن ٹریبونل کے سامنے کارروائی روکنے کی بھی استدعا کی ہے۔

قانونی صورت حال یہ ہے کہ اسلام آباد میں ایک ہی الیکشن ٹریبونل ہے اور قانون کے تحت الیکشن کمیشن مقدمات کو اسلام آباد سے باہر کسی ٹربیونل میں منتقل نہیں کر سکتا اور ریٹائرڈ ججوں کو بطور الیکشن ٹربیونل تعینات کرنے کا اختیار دینے والے آرڈیننس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔

درخواست گزاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں ٹربیونل سے انصاف نہیں ملے گا جہاں ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منصفانہ ٹرائل کا حق انصاف کا سنگ بنیاد ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 10 اے کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن میں کچھ قانونی خامیاں اور نقائص ہیں جو کہ کافی اہم نوعیت کے ہیں اور انتخابی پٹیشن کو خارج کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم، اس کا کہنا ہے کہ ٹربیونل نے نہ صرف الیکشن پٹیشن کے تمام مدعا علیہان کو طلب کیا بلکہ سماعت کی پہلی ہی تاریخ میں متعلقہ حکام سے الیکشن کا پورا ریکارڈ بھی طلب کرلیا، اس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی پٹیشن کا درخواست گزار بد نیتی کے ساتھانہیں قانونی حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

Election Tribunal

Election Tribunal Change Cse