مجھے سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کیا گیا، عمران خان کا ججوں سے مکالمہ
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا کیا آپ کیس سے متعلق کچھ ایڈ کرنا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے عمران خان کو ہدایت کی کہ پلیز آپ کیس سے متعلق ہی بات کیجئے گا، ہم صرف موجودہ کیس پر ہی رہنا چاہتے ہیں، آپ جیل میں اپنے حالات سے متعلق گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں۔
اس کے بعد عمران خان نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ سکورنگ کی؟
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہوچکا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا، آپ صرف کیس پر رہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، آپ نظر ثانی دائر کرسکتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیل کی مخالفت کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ترامیم ہوئیں تو میرا نقصان ہوگا، مجھے 14 سال کی قید ہوگئی کہ میں نے توشہ خانہ تحفے کی قیمت کم لگائی، دو کروڑ روپے کی میری گھڑی تین ارب روپے میں دکھائی گئی، میں کہتا ہوں نیب کا چیٸرمین سپریم کورٹ تعینات کرے۔
انہوں نے کہا کہ نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان صاحب ان ترامیم کو کالعدم کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، آپ نے میرا نوٹ نہیں پڑھا شاید، نیب سے متعلق آپ کے بیان کے بعد کیا باقی رہ گیا ہے،عمران خان صاحب آپ کا نیب پر کیا اعتبار رہے گا؟
عمران خان نے کہا کہ میرے ساتھ 5 روز میں نیب نے جو کیا اس کے بعد کیا اعتبار ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جیل میں جا کر تو مزید میچورٹی آئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ 27 سال قبل بھی نظام کا یہی حال تھا جس کے باعث سیاست میں آیا، غریب ملکوں کے 7 ہزار ارب ڈالر باہر پڑھے ہوئے ہیں، اس کو روکنا ہوگا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں چیئرمین نیب پر اتفاق نہیں ہوتا تو تھرڈ امپائر تعینات کرتا ہے، نیب اس کے بعد تھرڈ امپائر کے ماتحت ہی رہتا ہے، نیب ہمارے دور میں بھی ہمارے ماتحت نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں جمہوری نظام اخلاقیات، قانون کی بالادستی، احتساب پر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں پارلیمنٹ ترمیم کرسکتی ہے یا نہیں؟ جس پر عمران خان بولے کہ فارم 47 والے ترمیم نہیں کرسکتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پھر اسی طرف جارہے ہیں جو کیسز زیر التوا ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اس وقت نیب کو بھگت رہا ہوں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب ایسے ہی برقرار رہے گی؟ جس پر عمران خان بولے کہ نیب کو بہتر ہونا چاہیے، کرپشن کے خلاف ایک اسپیشل ادارے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی کا معاملہ یاد کرا دیا۔
عمران خان نے کہا کہ ترمیم بحال ہونے سے میری آسانی تو ہو جائے گی ملک کا دیوالیہ ہو جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ دبئی لیکس میں بھی نام آچکے ہیں، پیسے ملک سے باہر جارہے ہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عمران خان صاحب آپ کی باتیں مجھے بھی خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں، جب آگ لگی ہو تو نہیں دیکھتے کہ پاک ہے ناپاک، پہلے آپ آگ تو بجھائیں۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت میں اروند کیجریوال کو آزاد کرکے، سزا معطل کرکے انتخابات لڑنے دیا گیا، مجھے 5 دنوں میں ہی سزائیں دے کر انتخابات سے باہر کردیا۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے تو سیاسی نظام کس نے بنانا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بدقسمتی سے آپ جیل میں ہیں، آپ سے لوگوں کی امیدیں ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں دل سے بات کروں تو ہم سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملک کو کچھ ہوا تو عدلیہ نہیں سیاستدان ذمہ دار ہوں گے، کچھ بھی ہوگیا تو ہمیں شکوہ آپ سے ہوگا، ہم آپ کی طرف دیکھ رہے، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کا حوالہ دینا چاہا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں روک دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کیس میں شاید اپیل ہمارے سامنے آئے۔
عمران خان نے کہا کہ میں زیرالتوا کیس کی بات نہیں کررہا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا یہی خدشہ تھا کہ زیرالتوا کیس پر بات نہ کردیں۔
جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ آپ نے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیوں نیب بل کی مخالف نہیں کی؟ جس پر عمران خان نے کہا کہ یہی وجہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات ایسے بن گئے تھے، شرح نمو چھ عشاریہ دو پر تھی، حکومت سازش کے تحت گرا دی گئی، پارلیمنٹ جا کر اسی سازشی حکومت کو جواب نہیں دے سکتا تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں آپ اس وقت جیل میں ہیں یہ بدقسمتی ہے، آپ بڑی جماعت کے سربراہ ہیں، آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے ساتھ تو ظلم ہورہا ہے،غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے، میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمیں تو اصل گلہ ہی سیاستدانوں سے ہے، اگر ہم بھی خدانخواستہ فیل ہوگئے تو کیا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے جو ترسیلات زر آتی ہیں اشرافیہ باہربھیج دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں، ہم سیاسی بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر آپ کو روک نہیں رہے ، ڈائیلاگ سے کئی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فاروق نائک آپ کی بھی ذمہ داری ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں مگر آپ سیاستدان بھی احساس کریں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خان صاحب آپ سارا دن بہت تحمل سے بیٹھے.
Comments are closed on this story.