چاند کے دور افتادہ حصے میں برق پاروں کی دریافت
یورپی ماہرین نے چاند کے دور افتادہ حصے کی سطح پر ایسے برق پاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے جن کے تجزیے سے نظامِ شمسی کے دیگر ہوا سے محروم اجسام یا سیاروں کے چاندوں پر فضا کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
چین کا مُون مشن چینگ 6 چاند کے دور افتادہ حصے میں واقع ایک بڑے گڑھے میں لینڈ کرنے میں کامیاب رہا جسے ساؤتھ پول ایٹکن بیسن کہا جاتا ہے۔ چینی خلائی جہاز کے ساتھ یورپی اسپیس ایجنسی کا مشن بھی جڑا ہوا ہے۔
چاند کے دور افتادہ حصے کی سطح سے مٹی کے نمونے زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی یورپی ماہرین نے اہم دریافت کی ہے۔
زمین کی مقناطیسی کشش چاند کی کششِ ثقل سے 6 گنا ہے اس لیے وہ سورج کی روشنی یا شعاؤں پر کچھ اور ردِعمل دیتی ہے یعنی دھوپ کو واپس دھکیلتی ہے اور یوں زیادہ روشن دکھائی دیتی ہے جبکہ چاند پر فضا کے نہ ہونے اور مقناطیسی میدان چھوٹا ہانے کے باعث سورج کی روشی پڑنے کی صورت میں ریسپانس بھی کچھ اور ہوتا ہے۔
یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک جتنے مشن بھیجے گئے ہیں وہ چاند کی سامنے والے حصے میں اترتے رہے ہیں۔ چین نے اپنا مشن دوسری طرف اتارا ہے۔ یہ منفرد تجربہ ہے اور یورپ کو بھی اِس سے بہت کچھ سیکھنے کا مل رہا ہے۔
چاند کی سطح سے مٹی اور پتھروں کے نمونے بھی منگوائے جارہے ہیں۔ اُن نمونوں کے آنے سے پہلے ہی چاند کی سطح اور مجموعی ماحول سے متعلق نئی تحقیق کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ چاند کی سطح پر پلازما کے نئے اجزا کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
چاند پر روبوٹک مشنز بھیجنے کی دوڑ سی لگی ہے۔ ٹیکنالوجی کے حوالے حیران کُن پیش رفت نے ترقی یافتہ ممالک کو چاند کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کی راہ سُجھائی ہے۔ ایسے میں برق پاروں اور پلازما کے نئے اجزا کی دریافت زمین کے چاند کے علاوہ کسی اور سیارے کے کسی چاند پر بھی زندگی کی تلاش کے حوالے سے غیر معمولی کردار ادا کرسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.