طالبانائزیشن کا شکار رہنے والے علاقے کی یونیورسٹی میں رباب لانا جرم بن گیا
ملاکنڈ یونیورسٹی کے جرنلزم ڈپارٹمنٹ کے چھٹے سمسٹر کے طالب علم موسیٰ خان کے آخری پیغام کے مطابق ہفتہ 25 مئی کی شام کو سٹوڈنٹس سوسائٹی کے طلبا نے اپنے سینئرز کو الوداعی پارٹی دینے کا ارادہ کرتے ہوئے شام کو یونیورسٹی کے لان میں جمع ہونے کا فیصلہ کیا۔
ان لمحوں کو رباب کی دھنوں سے یاد گار بنانے کے لئے نوجوان اپنے ساتھ رباب لے کر یونیورسٹی کے احاطے میں آئے، لیکن مین گیٹ سے اندر آتے ہی چیف پراکٹر ڈاکٹر عزیز احمد نے طلبا کو گھیر لیا اور رباب کو سیکیورٹی روم میں چھوڑنے کی ہدایت کی۔
طلبا نے چیف پراکٹر کو بتایا کہ رباب کسی اور کا ہے اور وہ اُسے وہاں نہیں چھوڑ سکتے، اس لئے رباب کو باہر لے جائیں گے اور پارٹی منسوخ کر دیں گے۔ لیکن چیف نہیں مانے اور طلبا کے ساتھ سخت الفاظ کا تبادلہ کیا اور سکیورٹی کے زریعے ان سے ساتھ بدسلوکی بھی کی۔
اس دوران بحث مباحثے کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی اس میں پشتو میں کی گئی گفتگو واضح طور پر سنی جا سکتی ہے جس میں تلخی نمایاں نظر آئی۔
اگلے روز طلبا نے پرووسٹ کے دفتر میں ایک درخواست جمع کرائی اور چیف پراکٹر کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ ان کو طلبا کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا کوئی حق نہیں تھا، لہٰذا یونیورسٹی انتظامیہ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ چیف پراکٹر سے معافی نامہ جمع کرانے کا کہیں۔
طلبا کی اس شکایت کو ایڈریس کرنے کی بجائے اگلے روز انتظامیہ نے تین طلبا کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا، جن میں سے ایک شعبہ صحافت کے چھٹے سمسٹر کا طالبعلم موسیٰ خان، دوسرا انگلش ڈپارٹمنٹ کے چوتھے سمسٹر کا طالب علم وقاص خان جبکہ اشرف علی خان میتھیمیٹیکس ڈپارٹمنٹ کے 8 ویں سمسٹر کا طالب علم تھا۔
جس دن شو کاز دیا گیا اسی دن تینوں طلبہ کو ہاسٹل سے معطلی کے لیٹر بھیج دئیے گئے۔
قواعد کے مطابق طلبہ کو 72 گھنٹے (تین ورکنگ دن) کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ شوکاز کا جواب جمع کرایا جا سکے تاہم انہیں 24 گھنٹے میں معطل کر دیا گیا اور ہاسٹل چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔
تینوں طلبا نے پرووسٹ کے دفتر سے جواب جمع کرانے سے قبل معطل نہ کرنے کی درخواست بھی کی لیکن طلبا کی نہیں سنی گئی۔
شام 7 بجے مایوسی کی حالت میں موسیٰ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہاسٹل سے نکلا اور راستے میں اُس کی موٹر سائیکل حادثے کا شکار ہو گئی۔
اور یہاں سے کہانی شروع ہوئی خیبر پختونخوا کے صحت کے شعبے میں بلند و بانگ دعوؤں کی کہ جب آپ کی جیب میں پڑا 10 لاکھ کی مالیت کا صحت سہولت کارڈ بھی آپ کو پشاور کے صحت سہولیات سے مزین سٹیٹ آف دی آرٹ حیات آباد میڈیکل کیمپلیکس کے آئی سی یو میں بستر تک نہ دلوا سکے اور یوں ہیڈ انجری کا شکار نوجوان اللہ کو پیارا ہو گیا۔
پورے مالاکنڈ میں تو ہیڈ انجری کا علاج شاید ممکن نہیں تھا اس لئے موسیٰ کو تشویشناک حالت میں پشاور ریفر کر دیا گیا، لیکن پشاور میں بھی سہولیات کا فقدان تھا کہ ایک قیمتی جان چلی گئی۔
یہ سوال جب وزیر صحت سید قاسم علی شاہ کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے اپنی حکومت کے دس سالوں کی ترقی کا راز کچھ یوں کھول دیا۔
دس سال کی بلا تعطل حکمرانی اور صحت کی سہولیات کی کہانی
وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے بتایا کہ ملاکنڈ کے طالب علم کو ایچ ایم سی لایا گیا تو ریفرل زیادہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے تمام ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈ فل تھے۔ موسیٰ خان کو بیڈ ملنا چاہئے تھا جو ممکن نہ ہوسکا۔ آئی سی یوز کی ضرورت زیادہ ہے، ایچ ایم سی میں 35 بیڈز کے آئی سی یوز قائم کررہے ہیں۔ ایل آر ایچ اور کے ٹی ایچ میں بھی آئی سی یو کی تعداد بڑھائیں گے۔ دیگر اضلاع سے 66 فیصد مریضوں کو پشاور ریفر کیا جاتا ہے اس لئے کوشش ہے کہ ہر زون میں ٹراما سنٹرز بنایا جائے تاکہ مریضوں کو وہیں سٹیبل کیا جاسکے۔
25 مئی کی شام کی کہانی یونیورسٹی انتظامیہ کی زبانی
کیا بس اتنا ہی تھا؟ کیا واقعی ایک رباب کا ساتھ لے کر چلنا یا طلبا سوسائٹی کی ایک پارٹی میں رباب کے سروں کو چھیڑنے کی کوشش کرنا طلبا کا جرم بن گیا؟ یہ بحث کئی روز سے زبان زد عام ہے۔
اس دوران سوشل میڈیا پر آنے والا مواد اور موسیٰ خان کی تصاویر نے عوام کے جذبات کو کافی ٹھیس پہنچائی، لوگ تبصرے کر رہے ہیں کہ پختون سرزمین پر ایک ”رباب“ کا ہونا کسی کی جان لینے کا سبب کیسے بن گیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے آنے والے بیانات میں واقعے کو پرانے واقعات سے جوڑ کر پیش کرنے کی ایک ناکام کوشش نے بھی کئی سوالات کھڑے کر دئیے۔
ان سارے سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے جب آج نیوز ڈیجیٹل نے مالاکنڈ یونیورسٹی کے پرووسٹ جانس خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنا بیان دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے جو بیان سامنے آیا ہے اُسی کو حتمی سمجھا جائے۔
جس کے بعد ہم نے چیف پراکٹر ڈاکٹر عزیز احمد سے بات کی، اگرچہ وہ بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے قواعد اور ضوابط کی وجہ سے کچھ سوالوں کے جواب دینے سے گریزاں تھے، تاہم چونکہ 25 مئی کی رات کو رباب کو لے کر ہونے والی بحث اور پھر شوکاز نوٹس تک کی کہانی کے وہ براہ راست مرکزی کردار تھے، اس لئے ہماری درخواست پر انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں پروگرام کرنے پر پابندی نہیں، لیکن یہ سب ایک سسٹم کے تحت ہوتا ہے اور کوئی بھی سوسائٹی جب پروگرام کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے باقاعدہ ایک پروسیجر ہے جس کے تحت اجازت نامہ لیا جاتا ہے، جس کے بعد انتظامیہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کیا یہ درخواست اجازت طلب ہے یا نہیں، لیکن چونکہ اُس شام اچانک بغیر اجازت ہی پختون سٹوڈنٹ سے تعلق رکھنے والے طلبا رباب لے کر یونیورسٹی احاطے میں آئے اور پروگرام کرنے کی کوشش کی تو میں نے انہیں راستے میں روک کر ایسا کرنے سے منع کیا اور انہیں کہا کہ وہ رباب سکیورٹی والوں کے پاس جمع کروائیں کیونکہ ایسے واقعات کی ایکسپلینیشن کے جواب کے بعد چیزیں واپس کی جاتی ہیں، لیکن طلبا نے ایسا کرنے سے منع کیا اور یوں بات تو تکار تک پہنچی تاہم وی سی کے کہنے پر ہم نے طلبا کو رباب واپس کر دیا۔
جب رباب واپس کر دیا تو پھر شوکاز نوٹس کی کیا ضررت تھی
اس سوال پر ڈاکٹر عزیز احمد کا جواب تھا کہ یونیورسٹی کا اپنا ایک سسٹم ہوتا ہے اور ہم سب اُس کے تابع ہوتے ہیں، چونکہ واقعہ ہوا اس لئے اُس کا نوٹس لینا ضروری تھا۔
چلیں شوکاز نوٹس بھی دیا تو قواعد وضوابط اور شوکاز نوٹس کے مطابق 3 روز کا وقت تو جواب کے لئے دیا جانا چاہیے تھا۔ ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ 29 مئی کو شوکاز نوٹس ملا اور 29 کو ہی ہاسٹل سے موسیٰ خان سمیت تینوں طلبا کو معطل کر دیا گیا۔ ایسا کیوں؟
اس پر ڈاکٹر عزیز احمد نے کہا کہ یہ جواب آپ پرووسٹ سے مانگیں، یہ میرا ڈومین نہیں۔
کس کا کیا ڈومین ہے یہ ہر فیکیلٹی ممبر کو پتہ ہے لیکن جن قواعد اور ضوابط کے مطابق یہ ڈومین طے کئے گئے ہیں ان قواعد اور ضوابط کے مطابق طلبا کو دئیے گئے حقوق پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔
مالاکنڈ یونیورسٹی میں طلبا پر آزادی اظہار کی قدغنیں کیوں؟
اگرچہ یونورسٹی انتظامیہ یہ ماننے کو تیار نہیں لیکن سب سے بڑی ناانصافی طلبا یونین پر پابندی ہے جو ہمیں ہر یونیورسٹی میں نظر آتی ہے، لیکن مالاکنڈ یونیورسٹی میں ماضی میں آنے والے کئی نوٹیفکشن اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں کی انتظامیہ ایک خاص قسم کے بیانیے یا آئیڈیالوجی کے زیر اثر ہے، جس کا خمیازہ طلبا کو کئی قسم کی پابندیوں کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
خاص طور ترقی پسند سوچ کے حامل طلبا و طالبات ان بے جا پابندیوں پر جب آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کچھ ایسی سرگوشیاں بھی آپ کو سنائی دیتی ہیں کہ ’آپ کو تو پتہ ہے کہ یہ علاقہ طالبانائزیشن کا شکار رہا ہے ایسے میں اس قسم کی سرگرمیاں مسائل پیدا کر سکتی ہیں اس لئے طالبات کی بھلائی کے لئے کچھ اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں‘۔
لیکن!!!
رباب تو ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور ہمارے حجروں کا لازمی جزو ہے، اس پر پابندی کیوں؟ آپ نوجوانوں کے کندھے پر رباب رہنے دیں نا، کم از کم بندوق سے تو اچھا ہے۔
سوال اہم تھا لیکن جواب دینے والا کسی خاص سوچ کے تحت ماحول کو باندھ کر رکھنے کی کوشش میں تھا اس لئے جواب دیا کہ ’دیکھیں جی آج ان کو چھوڑ دیتے تو کل دوسری طرف والے مسئلہ بناتے‘۔
دوسری طرف ؟؟
’جی آپ کو تو پتہ ہے نا یونیورسٹی میں ہر سوچ کا حامل طالبعلم موجود ہے۔ اس لئے چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے‘۔
اور یوں دوسری طرف کی چیزوں کو دیکھتے دیکھتے ہم نے موسیٰ کھو دیا۔
Comments are closed on this story.