کیا آپ سیل فون، سوشل میڈیا کے بغیر ایک ہفتہ گزار سکتے ہیں؟
دنیا بھر میں سیل فون کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ خطرناک اس لیے یہ کہ اس کے استعمال سے زندگی میں عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ نئی نسل تعلیم سے بیگانہ ہوکر سوشل میڈیا کی رسیا ہوچکی ہے۔ دوسری طرف خواتینِ خانہ بھی سوشل میڈیا کی لَت میں مبتلا ہوکر اپنی بنیادی ذمہ داریاں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اسمارٹ فون کا بڑھتا ہوا استعمال اور سوشل میڈیا کی لَت اب باضابطہ ذہنی مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ دنیا بھر میں ایسے گروپ ابھر رہے ہیں جو تھوڑے تھوڑے وقفے سے اسمارٹ فون کا استعمال ترک کرنے کی مشق پر زور دے رہے ہیں۔
اِن گروپوں کا استدلال ہے کہ ہر ماہ چند اور ہر روز چند گھنٹے اسمارٹ فون سے دور رہنے کی صورت میں زندگی کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
اسمارٹ فون کا استعمال ترک کرنے اور سوشل میڈیا سمیت تمام متعلقہ سرگرمیوں سے کنارہ کش ہونے کے عمل کو ڈجیٹل ڈی ٹاکسنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی ڈجیٹل میڈیا کے ذریعے پیدا ہونے والے زہر سے جان چھڑانے کا عمل۔
نفسی امور کے ماہرین بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات اور پہلوؤں کو متوازن رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اسمارٹ فون کا استعمال معقول بنایا جائے اور سوشل میڈیا کی لَت سے چھٹکارا پایا جائے۔
ماہرینِ نفسیات و سماجیات کا کہنا ہے کہ ڈجیٹل ڈی ٹاکسنگ اس لیے لازم ہے کہ ایسا کرنے سے ذہن پر مرتب ہونے والے غیر ضروری دباؤ کو خاطر خواہ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر ضروری چیزیں دیکھتے رہنے سے ذہن پر دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.