1300 ارب : بجٹ میں کون سے نئے ٹیکس لگیں گے؟
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1200 سے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کا امکان ہے۔ ان میں نان فائلرز کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی شامل ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ میں اضافی محصولات کے لیے غیر منقولہ املاک کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ، گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس میں اضافہ، اور تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس سلیبز پر نظرِثانی شامل ہے۔
باخبر ذرائع نے روزنامہ بزنس ریکارڈ کو بتایا کہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فںڈ کے سامنے تجویز رکھی ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں چُھوٹ کی حد 10 لاکھ روپے کی جائے۔
حکومت نے تنخواہ دار و غیر تنخواہ دار کی تخصیص کے بغیر انفرادی سطح پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے اور ریٹ سیلبز کی تعداد گھٹانے کی بھی تجویز دی ہے۔
بجٹ تیار کرنے والے فائلرز اور نان فائلرز کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کے فرق کو مزید وسیع کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔ مشینری کی درآمد پر ایک فیصد پیشگی انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی زیرِغور ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہانہ 2 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔
ساتھ ہی ساتھ صنعتی خام مال پر صرف اعشاریہ پانچ فیصد تک پیشگی انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس کے نفاذ سے بھی ماہانہ 2 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔
چوتھی تجویز سپلائیز پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد تک اضافے کی ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ایک ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ پانچویں تجویز خدمات پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد پوائنٹ اضافے سے متعلق ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے وصول ہوں گے۔ ساتھ ہی ہی ساتھ ٹھیکوں پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کی بھی تجویز زیرِغور ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوں گے۔ چھٹی تجویز یہ ہے کہ بینک سے کیش نکالنے پر نان فائلرز سے لیے جانے والے صرف اعشایہ چھ فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس کو صفر اعشاریہ نو فیصد کردیا جائے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر عطیات اور غیر کاروباری اداروں کے لیے ٹیکس کی چُھوٹ ختم کرنے سے متعلق اقدامات پر بھی غور کر رہی ہے۔
وزارتِ خزانہ نے تجویز دی ہے کہ ٹیکس انسینٹیو کے پورے طریقِ کار پر نظرِثانی کی جائے تاکہ غیر ضروری کا دُہرے ٹیکس انسینٹیوز کو ختم یا نظام سے ہم آہنگ بنایا جاسکے۔ ایسا ٹیکس سسٹم متعارف کرانے پر زور دیا جارہا ہے جس میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو اور ٹیکس کی شرح کم ہو تاکہ کسی پر غیر ضروری بوجھ مرتب نہ ہو۔
سرمایہ کاروں کے لیے بہتر ماحول یقینی بنانے کی غرض سے غیر ضروری رکاوٹیں دور کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ اس وقت کارپوریٹ ٹیکس بھی لیا جارہا ہے اور مقسوم پر بھی ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ اس دُہرے معیار کو ختم کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی اعتراض کیا ہے کہ انفرادی سطح پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں میں توازن نہیں پایا جاتا جس کے نتیجے میں بعض تنخواہ داروں پر زیادہ دباؤ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو رعایتیں دینے کی صورت میں بہت سوں کو اس بات کی تحریک ملے گی کہ کاروباری سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی کے طور پر پیش کریں۔ یہ عدم توازن بہت سوں کو اپنی آمدنی اصل سے ہٹ کر کسی فرضی مد میں ظاہر کرنے کی تحریک ملے گی۔
Comments are closed on this story.