Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

آسٹریلیا میں بھی سولر سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والوں کو حکومتی کارروائی کا سامنا

گھروں میں پیدا ہونے والی اضافی بجلی سے گرڈ کی پیداوار کی کھپت گھٹ رہی ہے، لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے
شائع 20 مئ 2024 09:34am

آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز غیر معمولی تناسب سے شمسی توانائی پیدا کرکے گرڈ میں شامل کرنے پر بہت سے گھرانوں کو حکومت کی طرف سے کارروائی کا سامنا ہے۔ ریاست کے توانائی کے اداروں کا موقف ہے کہ گھروں میں بہت زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صورت میں گرڈ کی بجلی کی کھپت میں کمی سے لاگت میں اضافے کا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے۔

توانائی پیدا کرنے والے ریاستی ادارے گھرانوں پر اضافی بجلی پیدا کرنے کرکے گرڈ میں ڈالنے پر فیس بھی عائد کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چارجز گھٹانے کے طریقے بھی سامنے آئے ہیں۔

2021 سے آسٹریلین انرجی ریگیولیٹر (اے ای آر) ان ریاستوں اور علاقوں کے معاملات کا جائزہ لے رہا ہے جہاں بہت بڑے پیمانے پر شمسی توانائی پیدا کرکے سسٹم میں ڈالنے کی صورت میں لاگت بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں بجلی کے نرخ بھی بڑھ رہے ہیں۔

یہ تحریک آسٹریلین کونسل آف سوشل سروس اینڈ سینٹ ونسینٹ دی پال جیسے گروپوں نے شروع کی تھی۔ ان گروپوں کا استدلال ہے کہ جو گھرانے شمسی توانائی پیدا نہیں کرتے ان سے بجلی کے زیادہ نرخ وصول کرنا زیادتی ہے۔ مفادِ عامہ کے لیے کام کرنے والے بیشتر گروپ اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔

گھروں میں پیدا ہونے والی شمسی توانائی گرڈ میں شامل ہونے سے گرڈ کی اپنی بجلی کے استعمال کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں لاگت بڑھنے پر صارفین سے زیادہ وصولی کی جارہی ہے۔ اے ای آر کی طرف سے پانچ سالہ ٹیرف کے تحت صارفین سے شمسی توانائی گرڈ میں داخل کرنے کی فیس لینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

آسٹریلیا کے دوسرے ریجنز (مثلاً وکٹوریہ) میں صارفین سے ایسی کوئی وصولی نہیں کی جارہی۔ اے سی ٹی کے ایوو انرجی نے دو طرفہ پرائسنگ کی پالیسی واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی 2029 تک گھروں کی پیدا کردہ بجلی گرڈ میں ڈالنے پر کوئی چارجز نہیں لیے جائیں گے۔ اے ای آر نے بتایا کہ جنوبی آسٹریلیا اور کوئینز لینڈ کے بجلی کے نرخ نامے 2025 میں اپ ڈیٹ کیے جائیں گے۔

دی آسٹریلین انرجی ریگیولیٹر کا کہنا ہے کہ بجلی کے نیٹ ورک کی ڈیزائننگ اس طور نہیں کی گئی کہ گھروں میں پیدا کی جانے والی بجلی بہت بڑے پیمانے پر گرڈ میں داخل کی جائے۔ دن کے اوقات میں بجلی کے دو طرفہ بہاؤ کے باعث سسٹم پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

آسگرڈ کا کہنا ہے کہ اس کے 2 لاکھ 80 ہزار صارفین کے پاس سولر پینلز ہیں۔ 2030 تک مزید ایک لاکھ 80 ہزار صارفین کے پاس سولر پینلز لگے ہوں گے۔ صارفین کی پیدا کردہ بجلی قبول کرنا گرڈ کے لیے آسان نہیں۔ اس صورت میں پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔

حکومت نے اس ہفتے اعلان کیا ہے کہ تمام گھرانوں کو بجلی کے بلوں پر 300 ڈالر کا ریبیٹ ملے گا۔ اس کا مقصد لوگوں کو اپنی پیدا کردہ بجلی کے استعمال کو ترجیح دینے پر مائل کرنا ہے تاکہ بجلی کے بل قابو میں رہیں۔

حکومت نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹائمر والے برقی آلات کا استعمال بڑھاکر بجلی کے استعمال کو معقول حد میں رکھیں تاکہ بجلی کے بل بھی زیادہ آئیں۔ ایسے برقی آلات استعمال کرنے پر بھی زور دیا جارہا ہے جو اضافی بجلی کو گرڈ میں ڈالنے کے بجائے برداشت کرلیں۔

آسٹریلیا میں 40 لاکھ گھرانوں کے پاس سولر پینلز ہیں اور ڈھائی لاکھ گھرانوں کے پاس بیٹریز بھی ہیں جن میں وہ سولر پینلز کے ذریعے حاصل شدہ توانائی کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ بجلی کی ذخیرہ کاری بڑھتی جارہی ہے کیونکہ بیٹری کی قیمت گر رہی ہے۔ لوگوں کو گھروں میں اضافی بجلی پیدا کرنے پر کچھ وصول نہیں ہو پارہا۔ گھروں میں بجلی کی اضافی پیداوار سے لوگ اپنے بل کم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گرڈ پر پیداواری لاگت کے حوالے سے دباؤ البتہ بڑھ گیا ہے۔

Australia

Net Metering

SOLAR OVER PRODUCTION

BURDEN ON GRID

HOUSEHOLD TO BE CHARGED