لاش کو نیا سر لگا کر زندہ کرنے کا خواہشمند جنونی سرجن
اٹلی کے سرجن سرجیو کاناویرو نے امریکا میں متعدد ماہرین کی طرف سے سر کی پیوند کاری کے منصوبے کی شدید مخالفت کے بعد چین کا رخ کیا ہے۔ سرجیو کاناویرو نے لاش کا سَر کاٹ کر اُس کی گردن پر زندہ انسان کا سَر لگانے کا آئیڈیا پیش کیا تو طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے کُھل کر مخالفت کی اور اِس تصور کو محض پاگل پن قرار دیا ہے۔
سرجیو کاناویرو کو ایک ڈونر مل گیا تھا مگر پھر اُسے کسی لڑکی سے محبت ہوگئی اور اُس کا ارادہ بدل گیا۔
سرجیو نے یہ کہتے ہوئے کھلبلی مچادی تھی کہ تاریخ کا پہلا آپریشن بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہلاکت خیز مرض میں مبتلا ہونے والے ایک مریض کا سَر حال ہی میں مرنے والے ایک شخص کی گردن پر لگایا جائے گا۔
طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اس منصوبے کی شدید مخالفت میں بخل سے کام نہیں لیا۔ امریکا کی ایموری یونیورسٹی کے بایو ایتھیسسٹ پال روٹ والپ کا کہنا ہے کہ ’ہیون پراسیجر‘ کے نام سے سرجیو کاناویرو جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ قتل کے مترادف ہے۔
سرجیو کاناویرو سَر کی پیوند کاری روس کے کمپیٹر سائنس ان ویلیری اسپریڈونوف کی کرنا چاہتا ہے جو شدید بیمار ہے اور اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ایک طرف تو قانونی پیچیدگیوں سے کام بگڑا اور دوسری طرف ویلیری اسپریڈونوف کی زندگی میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
پوڈ کاسٹر جو اسکاٹ نے بتایا کہ جب ویلیری لینڈ مارک سرجری کا انتظار کر رہا تھا تب کچھ حیرت انگیز رونما ہوا۔ پہلے تو اس کا جسم متوازن ہوگیا۔ بیماری سے پنپنا بند کردیا۔ ویلیری نے اپنی جسمانی حالت کے ساتھ زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیا۔ دوسری تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اس کی ملاقات اینیستاسیا پانفیلووا سے ہوئی جو اُس سے پیار کرنے لگی۔ اور دونوں نے شادی کرلی۔
ویلیری سے مایوس ہوکر سرجیو نے چین کا رخ کیا جہاں ڈاکٹر ژیاؤپنگ رین کی شکل میں اپنی مرضی کا آدمی مل گیا۔ وہاں سرجیو نے 2017 میں سر کی پہلی ’کامیاب‘ پیوند کاری کی۔ اپنی ٹیکنالوجی کی آزمائش کے لیے اُس نے دو لاشوں کا انتخاب کیا۔ اُسے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب وہ ایک زندہ انسان پر بھی تجربہ کرے گا اور کامیاب رہے گا۔
ڈاکٹر راہن فرانسس کہتے ہیں کہ سرجیو کاناویرو کے بلند بانگ دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب تک ایسی کوئی ٹیکنالوجی میسر نہیں جو جو دو مختلف عصبی نظاموں والے افراد کو جوڑ سکے۔ اب تک چھوٹے حیوانات پر تجربے کیے گئے ہیں۔ کسی انسان کے سَر کی پیوند کاری بہت بڑا معاملہ ہے۔ ایسا کوئی بھی آپریشن بہت بڑا ہوگا اور اُس میں متعلقہ شعبے کے تمام ہی ماہرین کو شریک ہونا پڑے گا۔ تمام عصبی ریشوں کو جوڑنا بہت مشکل کام ہے۔
شکوک و شبہات کے باوجود تھوڑی بہت پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کی رائس یونیورسٹی کے ولیم سِکیما نے ایسے گریفین مونو ربن تیار کیے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کو سر سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
1950 کی دہائی میں روسی سائنس دان ولادیمیری دیمیخوف نے کتوں پر زندہ سر لگائے تھے۔ اس کے نتیجے میں دو سروں والے کتے منظرِعام پر آئے۔ یہ بات سب کو ورطہ حیرت میں ڈال گئی کہ جن جانوروں پر یہ تجربے کیے گئے وہ ایک ہفتے سے کچھ زیادہ ہی سہی، زندہ رہے۔
ایسے ہی تجربے امریکی نیورو سرجن رابرٹ جے وائٹ نے بندروں پر کیے جو آٹھ دن سے دو ہفتے تک زندہ رہے۔ یہ بندر بہت حد تک نارمل تھے۔ وہ ماحول کے مطابق ریسپانس بھی دیتے تھے اور ایک نے ڈاکٹر کو کاٹنے کی کوشش بھی کی۔ سرجیو کاناویرو نے بھی ایک بندر کی ویڈیو پیش کی ہے جس میں، اُس کے دعوے کے مطابق، ایک ایسے بندر کو دیکھا جاسکتا ہے جس کا مرکزی اعصابی نظام جان بوجھ کر کاٹ دیا گیا تھا اور پھر جوڑا گیا تھا۔ وہ بندر بالکل نارمل طریقے سے چل رہا تھا۔
سرجیو کاناویرو کو یقین ہے کہ وہ جس آپریشن کا خواب دیکھتا رہا ہے وہ بہت جلد ہوگا۔ اسکے لیے ایک طرف تو اخلاقی پہلو کو درست کرنا ہے اور دوسری طرف کسی رضاکار کی دستیابی یقینی بنانی ہے۔
Comments are closed on this story.