امریکی جامعات میں طلبہ مظاہرین پر حملے کرنیوالوں کی حقیقت بے نقاب
ایک طرف امریکی جامعات میں طلبا غزہ کے حق میں سراپا احتجاج ہیں تو دوسری جانب ان طلبا کے خلاف کچھ گروپس بھی احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں۔
برطانوی اخبار ”دی گارڈئین“ کے مطابق 30 اپریل کو امریکی جامعات میں ان دو گروہوں کے درمیان تصادم بھی ہوا، ہونے والے ہنگامے کے بہت سے گواہوں نے مشاہدہ کیا کہ احتجاجیوں میں بہت سے نقاب پوش تھے جو طالب علم دکھائی نہیں دیتے تھے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (کیر) کے مطابق ان ہنگاموں میں 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جبکہ حکام ابھی تک مجرموں کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں اور کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔
لیکن نفرت اور حکومت مخالف گروہوں کا مطالعہ کرنے والے محققین نے کئی انتہائی دائیں بازو کے کارکنان کے غزہ مظاہرین طلبا کے خلاف جوابی مظاہروں میں موجودگی کی تصدیق کی ہے جو پچھلے تین سالوں میں جنوبی کیلیفورنیا میں ہم جنس پرست اور ویکسین مخالف مظاہروں میں بھی شامل رہے ہیں۔
غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنانے میں بھارتی گولا بارود کا کردار بے نقاب
سدرن پاورٹی لا سینٹر کے ایک سینئر ریسرچ تجزیہ کار آر جی کریونز کا کہنا ہے کہ ان مخالف مظاہرین کے مشرق وسطیٰ میں جنگ کے خلاف مظاہروں کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ انہیں ایک وسیع دائیں بازو کے نظریے سے دیکھتے ہیں کہ اس سے ”روایتی“ معاشرے اور خاندان خطرے میں ہیں۔
مودی نے انتخابات میں جیت کیلئے اپنی فوج کی مدد لے لی؟
انہوں نے کہا کہ ’کیمپس مظاہروں کے خلاف ان کی دشمنی اسی طرح عیسائی انتہائی دائیں نقطہ نظر کا حصہ ہیں جیسے ہم جنس پرست عیسائیت کے لیے خطرہ ہیں اور اسی طرح فلسطینی یا مسلمانوں کو بھی خطرہ سمجھا جاتا ہے‘۔
ویسٹرن اسٹیٹس سینٹر میں پروگرام ڈائریکٹر لنڈسے شوبینر بھی اس رجحان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
برطانوی براڈ کاسٹر کے فلسطینیوں کی شہادت کے سوال پر اسرائیلی ترجمان گڑبڑا گیا
ان کے نزدیک دائیں بازو کے کارکنان کی غزہ مخلاف مارچ میں موجودگی افراتفری کے بیج بونے اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ سفید فام قوم پرست، مذہبی انتہا پسند اور جمہوریت مخالف کردار سیاسی اداکار ہیں جو موقع پرست اور اسٹریٹجک ہیں، ان کا مقصد حدت اور گروپوں کے درمیان تناؤ کو بڑھانا ہے، اور جب موجودہ بحران جیسی صورتحال پر اتنی توجہ دی جاتی ہے جیسے کہ غزہ تو یہ لوگ اچانک ظاہر ہو جاتے ہیں‘۔
شوبینر نے کہا کہ ’ہم نے فلسطین کے حامی طلبا اور اساتذہ کو غیر امریکی قرار دے کر موجودہ جنگ کے بارے میں بحث کو ہم آہنگ کرنے اور دوبارہ ترتیب دینے کی کوششیں دیکھی ہیں، جو کہ ناقابل یقین حد تک پریشان کن ہے‘۔
Comments are closed on this story.