غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنانے میں بھارتی گولا بارود کا کردار بے نقاب
دنیا بھر میں فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اب فلسطینیوں کے قتلِ عام میں کردار ادا کرنے والے ممالک کے بارے میں بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کا کردار بھی زیرِبحث ہے۔ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والے بھارتی ادارے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولا بارود فروخت کرتے آئے ہیں۔ یہ سارا سامان اسرائیلی فوجی نہتے، محصور تباہ حال فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی طرف سے 7 اکتوبر کو شروع کیے گئے قتلِ عام کے ابتدائی دنوں ہی سے مودی سرکار اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ رہا ہے۔ صہیونی فوج کے آپریشنز کے لیے بھارت کی طرف سے اسلحے اور گولا بارود کی فراہمی جاری رہی ہے۔ غزہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں اسلحہ فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت سے بھارت کے معاملات کا سامنے آنا سفارتی اور اسٹریٹجک معاملات میں اُس کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
وائر ڈاٹ اِن کی 7 مئی کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے فلسطینیوں کے قتلِ عام کے دوران بھارت کی سرکاری ملکیت والے ادارے میونیشنز انڈیا لمٹیڈ نے اسرائیل کو اسلحہ اور گولا بارود فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ اڈانی ایلبٹ ایڈوانسڈ سسٹمز انڈیا لمٹیڈ نے اسرائیل کو ڈرونز فراہم کیے ہیں۔ یہ ادارہ اڈانی ڈیفینس اینڈ ایئرو اسپیس اور اسرائیلی ادارے ایلبٹ سسٹمز کا مشترمہ منصوبہ ہے۔ 2019 سے 2023 کے دوران، حیدر آباد کن میں قائم، اڈانی ایلبٹ نے اسرائیل کو درجنوں جدید ترین ڈرون فراہم کیے جو خالص جنگی مقاصد کے لیے تھے۔
دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں پنپنے والی رائے عامہ کے تحت اب یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ نہتے اور محصور فلسطینیوں کے قتلِ عام میں اسرائیل کی مدد کس کس نے کی ہے۔ جن ممالک نے فلسطینیوں کے قتلِ عام کے گھناؤنے عمل میں اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اُن کے خلاف بھی رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ یہ عمومی تاثر مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں بھارت براہِ ملوث ہے یا باضابطہ فریق ہے۔
بھارت میں فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تین دن قبل بھارت کے تجارتی دارالحکومت ممبئی میں سومیہ اسکول کی پرنسپل پروین شیخ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کی پاداش میں برطرف کردیا گیا۔ بھارت میں عام ہندو بھی فلسطینیوں کے حالِ زار پر افسوس کا اظہار کرنے میں بُخل کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینیوں کی حالت دیکھ کر بھارتی مسلمانوں کے جذبات کیا ہونگے۔
یاد رہے کہ یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا اُن تمام ممالک کے جہازوں کو بحیرہ احمر اور خلیج عدن سے گزرنے والے ایسے تمام جہازوں پر میزائل داغتی رہی ہے جن کا اسرائیل سے کوئی نہ کوئی کاروباری یا اسٹریٹجک تعلق رہا ہو۔ بھارتی جہازوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان واقعات نے بھارت میں اسرائیل کے خلاف کسی حد تک رائے عامہ ہموار کی ہے۔ مختلف حلقے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت پر بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کی اسٹریٹجک پارٹنرشپ فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے بروئے کار لائی جاتی رہی ہے۔ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والے بھارتی ادارے اسرائیل کو اسلحہ اور گولا بارود فراہم کرتے رہے ہیں۔ یہ اسلحہ فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہوتا رہا ہے۔
ڈھائی قبل بھارت کے بہت سے شہروں میں بندر گاہوں پر کام کرنے والے مزدوروں نے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر اسرائیل بھیجے جانے والے اسلحے اور گولا بارود کی لوڈنگ سے انکار کردیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں فریق نہیں بننا چاہتے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتلِ عام کے 135 دن مکمل ہونے پر 20 فروری 2024 کو بھارت سے فلسطینیوں کے حق میں آواز ابھری۔ www.jacobin.com پر شائع ہونے ایک رپورٹ کے مطابق بندر گاہوں اور آبی گزر گاہوں پر کام کرنے والے 15 ہزار سے زائد محنت کشوں کی تنظیم دی واٹر ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریش نے فلسطینی محنت کشوں کی تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی کال سے اتفاقِ رائے کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی 12 کلیدی بندر گاہوں پر تعینات ساڑھے تین ہزار محنت اسرائیل بھیجے جانے والے ہتھیاروں اور گولا بارود کی ہینڈلنگ نہیں کریں گے۔
Comments are closed on this story.