سب مان رہے ہیں مداخلت ہو رہی ہے، سیاسی جماعتیں مداخلت روکنا نہیں چاہتیں، جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ میں ججز خط ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ہمارا فرض ہے، ہم نے حلف لیا ہے، سول جج اتنا ہی طاقتور ہے جتنے دیگر، جج کھڑا ہوکر اپنا لوہا منوائے، ایگزیکٹیو روئے گا پیٹے گا اور تو کچھ نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے نوٹس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس منظور علی شاہ نے نظام بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے، جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 مداخلت کا فائدہ ایک سیاسی جماعت کو ملا آج کسی اورکو مل رہا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لئے کی جائے، جبکہ جسٹس اطہر من اللہ بولے حتمی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے، کسی مہذب معاشرے میں ججز کےخط پراب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بچہ کے شیشہ توڑنے پر باپ کوبتایا جاتا ہے، ادارے کا سربراہ بچوں سے پوچھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، کیا حکومت نے مداخلت پراپنے بچوں سے پوچھا ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جو بتایا جارہا ہے حقیقت اس سے بہت مختلف ہے، عدلیہ کی خاموشی کی وجہ سے عوام کا عدلیہ پراعتماد ختم ہوچکا ہے۔
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے دلائل کیلئے مہلت کی استدعا کی، چیف جسٹس کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ اورجسٹس اطہرمن اللہ کا اضافی نوٹ پڑھا جس میں جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔
پاکستان بارکونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل میں جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کیا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لگتا ہے پاکستان بار کونسل نے ہائیکورٹس کے جواب کی روشنی میں سفارشات مرتب نہیں کیں، ہم نے 76 سال جھوٹ بولا، سچ کو چھپایا ہے، سب عوام کو جوابدہ ہیں فیض آباد دھرنا فیصلے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا، سب مان رہے مداخلت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھ ججزکا خط نہیں اس میں مداخلت کا جاری رجحان واضح کیا گیا، 2018 میں ہائیکورٹ ججز کیلئے مشکل یہ تھی کہ مداخلت سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے ہورہی تھی، ہمیں اب خوف ختم کرکے سچ بولنا چاہیے، ڈر کس بات کا ہے عوام کے سامنے سچ بولیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی توہین عدالت تین نومبر2007 ہوئی لیکن اس پرکسی کو سزا نہیں ملی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے انتظامی ، عدلیہ اور سوشل میڈیا کی مداخلت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مارشل لاء ڈکٹیٹرز کو نہ بولنے والوں کو بھی سراہنا چاہیے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں لیا اور چلے گئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سب ججز کو اپروچ کیا جاتا ہوگا، مجھ سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی میں دباؤ میں نہیں آیا، ججز کو خود مضبوط اور بہادر ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج کے پاس مداخلت پر کھڑے ہونے کی طاقت ہوتی ہے جج کوعدلیہ خود نکال سکتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ججز کو حلف کے ساتھ دیانتدار ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج موت کی سزائیں سناتے ہیں ان پر بھی پریشر ہوتا ہے ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اس ملک میں جابر آکر کہتے رہے جو ہم کہتے ہیں وہ کرو، ایسے ہیروز تھے جنہوں نے آگے سے کہا خدا حافظ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ بولے چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں۔
وکیل احمد حسن نے شعر پڑھا ”نظام مے کدہ بگڑا ہوا ہے“، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے معذرت کے ساتھ مے کدہ میں نظام کیسے بگڑ سکتا ہے شعرمیں سقم ہے، وکیل کے پورے شعر پڑھنے پر جسٹس منصور علی شاہ بولے اب سقم دور ہو گیا ہے، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ لکھا
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک معزز جج نے اضافی نوٹ لکھا وہ بھی پڑھ لیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل کو پڑھنے میں دشواری پر جسٹس اطہرمن اللہ نے خود نوٹ پڑھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نوٹ میں لکھا ہے وفاقی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے مداخلت نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ہائیکورٹ ججز نے نشاندہی کی مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اس موقع پر جسٹس نعیم اخترافغان بولے یہ بات اصل آرڈر کے پیرا گراف پانچ میں بھی ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس پیراگراف میں صرف تجاویز مانگنےکی بات تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کوئی خفیہ ادارہ جواب دینا چاہے تو اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کرا سکتا ہے، سپریم کورٹ نے وکلاء تنظیموں کو بھی تحریری جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔
گزشتہ سماعت میں صوبائی ہائیکورٹس سمیت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تجاویز جمع کرائیں، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ سماعت پر یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، ہم عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے، اگر مداخلت نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔طے کر لیں کسی طاقت، ایجنسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔
Comments are closed on this story.