سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت 8 مئی تک ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس پر سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔
آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے سلمان صفدر و دیگر جبکہ ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ کیس بہت لمبا ہوگیا، استدعا ہے کہ جلد سے جلد ختم کیا جائے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ میرا تاخیر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم آپ کے دلائل کی تعریف کریں گے کیونکہ آپ نے عدالت کو تفصیلی بتایاہے۔
اس موقع ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر ٹیلی گرام کو 6 کے بعد ضائع کردیا جاتا ہے یا اس میں توسیع کی جاتی ہے، ہر کاپی پر کلاسیفائیڈ ہونے کی مہر لگی ہوتی ہے۔
بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر گائیڈ لائن کتابچہ عدالت کے سامنے پڑھا۔
انہوں نے بتایا کہ سائفر دستاویز اگر ڈی کلاسیفائی بھی ہو جائے تو اس پر وہی طریقہ کار استعمال ہو گا، ڈی کلاسیفائی ہونے کے باوجود بھی دستاویز کو اسی طرح تباہ کیا جائے گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے سیکریٹریٹ کے ضابطے کی کونسی شق کی خلاف ورزی کی ہے؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 31 مارچ کی قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ میں ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا، ڈی مارش کا ایکشن لینے کے فیصلے کے بعد موجودہ سائفر کا عمل مکمل ہو گیا۔
اس کے بعد اس سائفر کو دفتر خارجہ کو بھیجنے کے علاوہ کوئی عمل باقی نہیں رہا، بانی پی ٹی کے علاوہ تمام سائفر کاپیز دفتر خارجہ کو واپس بھیجوا دی گئیں، دفتر خارجہ نے واپس آنے والی تمام کاپیز کو تباہ کر دیا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ عدالت نے سوال کیا تھا کہ کیا ملزم کا دفاع وکیل کی عدم موجودگی میں ہو سکتا ہے؟ وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے بیان کی اہمیت کم تو نہیں ہو جائے گی؟
جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 342 کے دفاع کے بیان میں وکیل کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں، میں قانون کے مطابق سائفر کاپی حفاظت کے حوالے سے ایک پشاور ہائی کورٹ اور مختلف بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کو حوالہ دوں گا۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 ون ڈی پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کہا کہ سائفر اور دیگر خفیہ دستاویزات کے لیے سیکیورٹی طریقہ کار مختلف ہیں، حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ میں جو سیکیورٹی سسٹم ہے وہ لاکر وغیرہ سے مختلف ہے، کسی بھی اتھارائزڈ شخص کا خاندان یا ملازم خفیہ دستاویز وصول نہیں کرسکتا اور نہ دستخط کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سائفر دستاویز دانستہ اور لاپرواہی سے گم کرنے کے دونوں الزامات پر سزا سنائی گئی، کیا یہ دونوں الزامات بیک وقت ہو سکتے ہیں؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مختلف اوقات کے اقدامات پر دونوں الزامات بیک وقت لگیں گے، سائفر سیکیورٹی کا مقصد یہی ہے کہ سائفر کو کسی غیرمتعلقہ شخص کے پاس جانے سے روکا جائے، چند حالات کے علاوہ سائفر کو کمرے سے کہیں باہر نہیں لے جایا جا سکتا، سائفر کو کنٹینر میں رکھ کر غیرمعمولی سیکیورٹی انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا اعظم خان نے سائفر دستاویز موصول کرنے پر ریسیونگ دی تھی؟
حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ اعظم خان نے خود نہیں بلکہ اسٹاف نے سائفر دستاویز موصول کیا، اعظم خان نے بیان دیا کہ انہیں سائفر کاپی دی گئی اور وہ انہوں نے وزیراعظم کو دے دی، عدالت نے سوال کیا تھا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کو سائفر کی اہمیت کا علم تھا؟
پھر پراسیکیوٹر نے بانی پی ٹی آئی کی اپنے یوٹیوب چینل پر کی گئی گفتگو پڑھ کر عدالت میں سنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے ایف آئی اے پیشی سے پہلے اپنے یوٹیوب چینل پر گفتگو کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یوٹیوب چینل پر گفتگو قابلِ قبول شہادت کیسے ہے؟ آپ کو عدالت کو اس متعلق بھی مطمئن کرنا ہو گا۔
جس پر حامد علی شاہ نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سائفر بہت اہم ہوتا ہے اور اگر لیک ہو جائے تو سارے کوڈ پبلک ہو جاتے ہیں، میں اس کے بعد اس گفتگو کے قابلِ قبول شہادت ہونے سے متعلق دلائل دوں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق وزیر اعظم خفیہ دستاویز کی حساسیت سے واقف تھے اور انہوں نے لاپرواہی کی؟
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے پھر مختلف بھارتی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سائفر وصول کرنے کا کہیں بھی انکار نہیں کیا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان کا بیان کہتا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو کاپی دے دی، ملزم کا اپنا اعتراف 342 کا بیان اور ایک ٹی وی چینل پر انٹریو شامل ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں اس کی بات کی ہے ، فرض کرلیا جائے کہ ٹرائل ٹھیک نہیں ہوا پھر بھی دوسرا اور اور تیسرا چارج ٹھیک ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے مزید بتایا کہ اس ہفتے میں دلائل مکمل کر لوں گا
عدالت نے کہا کہ اگر ایک میں بریت ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں سب میں بریت ہے ، اگر ایک میں سزا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں سب میں سزا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.