مولانا صاحب کو نہ دلہے کی جگہ ملی نہ ہی باراتیوں میں اہم مقام ملا تو تکلیف تو ہو گی، مرتضی سولنگی
سابق نگراں وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا کہ مولانا کی عبرت ناک شکست ان کے اپنے صوبے میں ہوئی ہے اور جیتنے والی جماعت پی ٹی آئی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا ہےکہ مولانا کا غصہ کس کے خلاف ہے ۔ مولانا صاحب کو سیاسی میلے میں اکثر دلہا نہیں تو کم از کم برارت میں اہم جگہ ملتی تھی وہ بھی ان سے چھن گئی ہے تو تکلیف ہو ان کو ہو گی مولانا کی نہ دوستی کسی کے ساتھ مستقل ہے نہ ناراضگی ۔
آج کے پروگرام روبرو میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے سوالات پر انھوں نے کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور مولانا نے اپنی ناراضگی ظاہر کر دی ہے کہ وہ صدارتی امیدوار تھے اور انکی جگہ ایک بار پھر زرداری صاحب کو صدر بنایا گیا ہے۔ لیکن دونوں جماعتیں ملکر مولانا فضل الرحمان کو منا لیں گی اور جو اصول ان کو چاہیئے وہ ان کو موصول ہو جائیں گے اور ان کی ناراضگی دور ہو جائے گی۔
مرتضی سولنگی نے عمران خان کے حوالے سے برطانیہ کے اخبار میں چھپے مضمون پر کہا کہ مضمون لکھنے کے لئے جو سہولیات ہونی چاہیئے وہ وہاں پر موجود نہیں ہیں۔ عمران خان کے حوالےسے خبر ان کے سابق سسرالی دیس میں چھپا ہے جہاں ان کے بچے بھی موجود ہیں ۔ اور جس خبار میں چھپا ہے اس میں وہ خود بھی لکھتے رہے ہیں ۔ اس اخبار کی شہرت اسرائیل نواز ہے اور آج بھی اس کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہے ، اخبار میں لگی آرمی چیف کی ایرانی وزیر اعظم کے ساتھ تصویر اس بات کی ترجمانی ہے کہ پاکستان کی فوج اور ایران ایک طرف جا رہے ہیں حالانکہ مضمون میں ایرانی وزیر اعظم کا کوئی زکر نہیں ہے۔
افغان شہریوں کے حوالے سے سابق نگراں وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان نے اپنی حکومت میں ختم ہونے سے پہلے سینہ ٹھوک کر ٹی وی پر کہا کہ ہم ان دہشتگردوں کو واپس لے آئے ہیں اور ان کو معافی دیتے ہیں ، مسلم خان اور محمود خان کو سوات کے قصائی کے طور پر مشہور تھے ان کو معافی دلوائی اب یہ کہنا کہ دہشتگری کیوں بڑھ رہی ہے تو خان صاحب اپکو یاد ہو گا کہ قتل کے بعد جو مزاکرات ہوئے ان میں خان صاحب کا نام بھی شامل تھا ، ان کے سابقہ اور موجودہ وزیر اعلی نے کہا تھا کہ ہم ان کو دفاتر کھول کر دیں گے ۔ دہشتگردوں کے کمر کچلنے کے بعد ان سے مزاکرات ہوتے ہیں اور یہی ہمارا آئین بھی کہتا ہے، طالبان نے اپنے اپکو مضبوط اور ریاست کو کمزور کیا ہے۔
مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جن 3 افراد کو نامزد کیا ہے وہ تینوں نام کون ہے ؟ وہ علی امین گنڈاپور، عمر ایوب یا پھر شبلی فراز ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان کے نزدیک آئین کی حکمرانی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے میں ہے اس پارلیمان سے نہیں بات کر سکتے جس میں وہ بیٹھے ہیں۔
مرتضی سولنگی نے کہا کہ نگراں حکومت میں اگر کچھ غلط ہوا ہے تو اس کی ذمے داری نگراں حکومت کی ہے، ہم نے ہر بار کہا کہ ہم اہنے دور کی زمے داری لیتے ہیں ہمارے پاس نہ وقت ہے نہ دلچسپی کہ پچھلی حکومتوں نے کیا کیا ہے ۔ اگر ہم نے کوئی کام غلط کیا ہے تو تحقیقات ہونی چاہیئے۔ ہمارا سیاسی کلچر ہے کہ کوئی ذمےداری قبول نہیں کرتا بلکہ پچھلی حکومت پر ڈالتا ہے ، ہمارے بال سفید ہو گئے ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ سندھ میں امن وامان کا مسئلہ بہت پہلے سے ہیں لیکن آج کل واٹس اپ فارورڈ والوں کو کیا پتہ کہ تاریخ کیا ہے۔
Comments are closed on this story.