Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

عاصمہ جہانگیر کانفرنس انتظامیہ کی شرکا پر کسی بھی قسم کے تشدد کی تردید

ہم غیر مشروط طور پر آزادی اظہار کے لیے پرعزم ہیں، منیزے جہانگیر
شائع 30 اپريل 2024 06:33pm

عاصمہ جہانگیر کانفرنس انتظامیہ نے سماجی کارکن کی جانب سے شرکا پر تشدد کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

سینئیر خاتون صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس انتظامیہ کی جانب سے ہجوم پر تشدد کی خبر کی سختی سے تردید کی ہے۔

منیزے جہانگیر کے مطابق سماجی کارکن عمار علی جان نے کانفرنس کے دوران انتظامیہ کی جانب سے ہجوم پر تشدد کا االزام لگایا تھا۔

خیال رہے کہ عمار علی جان نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں جرمن سفیر پاکستانیوں کو آزادی اظہار کے بارے میں لیکچر دے رہے ہیں جبکہ جرمن حکومت نے غزہ پر کسی بھی بحث پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس تقریر کے دوران بولنے والے طلبہ کو گھسیٹ کر مارا پیٹا گیا‘۔

واضح رہے کہ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک شخص نے اچانک فلسطین میں جاری مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ ’معاف کیجئے، جناب سفیر، میں اس دیدہ دلیری پر حیرت میں مبتلا ہوں کہ آپ یہاں شہری حقوق کی بات کرنے آئے ہیں جب کہ آپ کا ملک فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہا ہے‘۔

جس کے بعد انہوں نے اس شخص کو کہا کہ ’اگر آپ چِلّانا چاہتے ہیں تو باہر جائیں، وہاں شور شرابہ کر سکتے ہیں، کیونکہ شور مچانا بحث و مباحثہ نہیں ہے‘۔

اس الزام کے بعد منیزے نے واضح کیا کہ ’یہ ایک اشتعال انگیز جھوٹ ہے، خاص طور پر جب ہر چیز کو عکس بند کرنے کے لیے کئی کیمرے موجود تھے‘۔

ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی اور عمار علی جان سے اسی ویڈیو کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ اپنے خیالات لکھے تھے۔

جس پر ردعمل دیتے ہوئے منیزے جہانگیر نے اپنے ٹوئٹ کے ایک تھریڈ میں لکھا کہ ’ایک بار جب احتجاج ریکارڈ کرا دیا گیا تو خواتین وکلا نے مردوں کے ہجوم سے بیٹھنے کی درخواست کی۔ لیکن وہ جارح ہو گئے اور بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے لکھا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس جتنی بڑی کانفرنس میں سکیورٹی کے بہت زیادہ خدشات ہیں اور ہم رکاوٹ کو جاری نہیں رہنے دے سکتے تھے، کیونکہ ہمیں مزید آگے بڑھنا تھا اور خدشہ تھا کہ ہنگامہ آرائی پھیل سکتی ہے اور سکیورٹی کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتی ہے۔

منیزے کے مطابق اس واقعے کے بعد منتظمین میں سے ایک مرد مظاہرین سے بات کرنے گیا اور انہیں غزہ کے اجلاس میں مدعو کیا، تاہم افسوس کی بات ہے کہ مظاہرین نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ ہم غیر مشروط طور پر آزادی اظہار کے لیے پرعزم ہیں۔

منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ میڈیا منصفانہ رپورٹنگ کرے گا، ہمارے نقطہ نظر کو بھی بیان کرے گا اور غزہ پر ہونے والے اجلاس کو کچھ کوریج دے گا جہاں مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی، فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم الحاق کے شوان جبرین، ایوینجلیکل لوتھرن چرچ کے ریورنڈ منتھر آئزک پادری نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر بات کی۔

منیزے کے مطابق فلسطین کے بارے میں خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیا جو کہ ایک اہم بیان تھا۔

انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کے آغاز اور اختتام سمیت متعدد مقررین نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیل کو 4 جنگی جرائم کے ذمہ دار ٹھہرانے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تاھ کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو سب کے لیے کھلا ہے اور انسانی حقوق کے مسائل پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی بات چیت پر یقین رکھتا ہے۔

Munizae Jahangir

ASMA JAHANGIR CONFERENCE