سستی اور معیاری ادویات کی فراہمی: حکومت فارما انڈسٹری کے ساتھ ملکر پالیسی تیار کرے، چئرمین پی پی ایم اے
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین میاں خالد مصباح الرحمان نے پاکستان کے ادویہ ساز سیکٹر کو درپیش اہم چیلنجز بالخصوص ادویات کی قلت اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
چیئرمین خالد مصباح الرحمان نے آج نیوز پر ایک شو کے دوران ملک میں ادویات کی قلت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن اور قیمتوں میں کمی سے کچھ مسائل بتدریج حل ہو سکتے ہیں، لیکن ضروری ادویات کا مسئلہ برقرار رہے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے ضروری ادویات کی قیمتوں میں سالانہ اضافے کو 7 فیصد تک محدود کر دیا ہے، جو کہ حالیہ برسوں میں نمایاں افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی کے پیش نظر کم ہے۔
مصباح الرحمان نے قیمتوں کے تعین کی زیادہ لچکدار ایسی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا جو معاشی حقائق کے مطابق ہو سکے۔
انہوں نے قیمتوں کے ضوابط میں تفاوت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی دوسری شے ایسی نہیں ہے جس کی قیمت میں صرف 7 فیصد اضافہ ہوا ہو۔ کچھ اشیاء کی قیمتوں میں 70 اور 80 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے‘۔
مصباح الرحمان نے پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں میں تفاوت کو بھی اجاگر کیا۔
اہوں نے نوٹ کرایا کہ بھارت کی میعشت زیادہ مستحکم ہے، اسی لیے اس نے غیر ضروری ادویات کی قیمتوں میں 12.2 فیصد اضافے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
انہوں نے پاکستان کی قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ منصفانہ ہیں اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ضروری ادویات کی فہرست میں 494 ادویات ایسی ہیں جو کہ خطے میں سب سے بڑی ہے۔ اس فہرست میں بھارت کی 384، بنگلہ دیش کی 120 اور سری لنکا کی صرف 60 ادویات شامل ہیں۔
صحت کے کس شعبے سے فارما سیکٹر کی چاندی ہوگئی؟
ریگولیٹری مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مصباح الرحمان نے 1976 کے فرسودہ ڈرگ ایکٹ پر تشویش کا اظہار کیا، جس پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں رائج جدید معیارات اور طریقوں کے مطابق نظر ثانی نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نےڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی اس ضرورت کو اجاگر کیا کہ اس کے پاس ریگولیٹری چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مناسب عملہ اور آلات ہونے چاہئیں۔
مصباح الرحمان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر قانوننے ڈریپ کو خود مختاری دی ہے تو لوگوں کو بھی اس خودمختاری کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے ڈائریکٹر کی تقرریوں میں تسلسل کے فقدان کی وجہ سے ریگولیٹری اتھارٹی کو درپیش چیلنجوں کی نشاندہی بھی کی۔
مصباح الرحمان نے مینوفیکچرنگ کی معمولی غلطیوں کے بارے میں موجودہ نقطہ نظر پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بین الاقوامی معیارات انتباہ اور تفتیش پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، وہیں پاکستان کے قوانین اکثر مجرمانہ قانونی چارہ جوئی کا باعث بنتے ہیں، اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ارادہ کیا تھا۔
ادویات کی زیادہ سے زیادہ قیمت ڈی ریگولیٹ کرنے سے متعلق فیصلے سے بہتری کی امید
انہوں نے کوالٹی کنٹرول کے مسائل پر مزید نفیس نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دوا ساز کمپنیوں کو بے جا جرمانے سے بچایا جا سکے۔
مصباح الرحمان نے اس امید کا اظہار کیا کہ غیر ضروری ادویات کی حالیہ ڈی ریگولیشن سے مسابقت میں اضافے کے ذریعے کچھ غیر ضروری ادویات کی دستیابی اور قیمتوں میں بہتری آئے گی۔
تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے فارماسیوٹیکل سیکٹر کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں تیار کرے جو ترقی اور پائیداری کو فروغ دیں، اور مریضوں کو سستی اور اعلیٰ معیار کی ادویات تک رسائی کو یقینی بنائی جاسکے۔
بھارتی فارماسوٹیکل کمپنیاں غیر معیاری ادویات کے باعث دنیا بھر میں بدنام
مصباح الرحمان نے بامعنی تبدیلی کے حصول کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کو شامل کرتے ہوئے اصلاحات کے لیے ایک باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
خیال رہے کہ ادویات سازی کا شعبہ پاکستان کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، اور آبادی کی صحت اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے اسے درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ضروری ہے۔
اس طرح پی پی ایم اے چیئرمین مصباح الرحمان کا فوری اصلاحات کا مطالبہ سیکٹر کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ادویات کی قلت اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
Comments are closed on this story.