جنریشن زی کو بندھن پسند نہیں، مالی آسودگی کیلئے فری لانسنگ کی طرف مائل
ہر دور کی نئی نسل غیر معمولی خواہشات، امنگوں اور آرزوؤں کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔ نئی نسل خواب نہ دیکھے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ بڑے بڑے خواب دیکھنے اور اُن کی تعبیر تلاش کرنے نکل پڑنا ہی تو عہدِ شباب کی سب سے بڑی علامت ہے۔
1996 کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو اصطلاحاً جنریشن زی کہا جاتا ہے۔ جنریشن زی کی آنکھوں میں بھی بڑے بڑے خواب ہیں۔ اس کے دل میں بھی امنگیں اور آرزوئیں مچلتی رہتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ کسی بھی دور کی نئی نسل کے مقابلے میں آج کی نئی نسل یعنی جنریشن زی کسی بھی نوع کی پابندی کے دائرے میں مقید نہیں رہنا چاہتی۔ وہ چاہتی ہے کہ اُسے کھل کر کام کرنے دیا جائے، اس پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے۔ یہی سبب ہے کہ اب سیلف ایمپلائمنٹ اور فری لانسنگ تیزی سے مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے ایک تجزیے کے مطابق جنریشن زی چاہتی ہے کہ نوکری کے بندھن میں بندھے رہنے کے بجائے فری لانسر کی حیثیت سے یا سیلف ایمپلائیڈ کی حیثیت سے کام کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ اب نوکری کا رجحان کمزور پڑ رہا ہے۔ جنریشن زی چاہتی ہے کہ اُس کے پاس ایک لیپ ٹاپ ہو، انٹرنیٹ کنکشن ہو اور بس۔ اِن دو ہتھیاروں کے ذریعے وہ آج کے میدانِ مسابقت میں بھرپور اور کامیاب زندگی کی جنگ جیتنا چاہتی ہے۔
نئی نسل کو کریئر کے حوالے سے راہ نمائی فراہم کرنے والے ادارے گرے میٹر گلوبل کے چیف ایگزیکٹیو سلمان شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل بھی چاہتی ہے کہ کسی بھی طرح کے بندھن میں بندھے بغیر زیادہ سے زیادہ اور معیاری کام کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ کمانا لازم ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں جنریشن زی سے تعلق رکھنے والوں کو آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش ہے۔
سلمان شاہد کہتے ہیں کہ جامعات میں پڑھنے والے 78 فیصد طلبہ اب بھی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اچھی نوکری مل جائے تاہم ایسی خواہش اور سوچ رکھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ پر شخصی ارتقا کے موضوع پر بولنے والے اور انفلوئنسرز نئی نسل کو زیادہ اور معیاری کام کرنے کی راہ دکھا رہے ہیں۔ وہ نئی نسل کو کچھ الگ سے کر دکھانے کا حوصلہ دے رہے ہیں۔ زمانے کی روش کا تقاضا ہے کہ ہماری جنریشن زی بھی روایات سے ہٹ کر کچھ کرے، اپنے آپ کو جدت اور ندرت کے حوالے سے تسلیم کروائے۔
سلمان شاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی زمانہ تعلیم و تربیت بہت مہنگی ہے۔ کوئی نوجوان اگر کسی جامعہ میں چار سال تک بیس لاکھ روپے تک خرچ کرکے کوئی ڈگری لیتا ہے تو اُسے محض پینتیس چالیس ہزار روپے ماہانہ کی ملازمت دینا اُس سے صریح زیادتی ہے۔
ملازمت کے نتیجے میں کچھ زیادہ نہ مل پانے کے باعث اب فری لانسنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کام کرکے آمدنی کا گراف بلند کیا جاسکے۔ ہالی وُڈ اور بالی وُڈ میں اس حوالے سے فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اِن فلموں کے ذریعے نئی نسل کو کچھ کر دکھانے کی تحریک دی جاتی ہے۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنریشن زی کو شخصی ارتقا اور زیادہ سے زیادہ مالی آسودگی یقینی بنانے میں مدد دینے کے لیے ٹی وی ڈراموں اور شارٹ وڈیوز پلیٹ فارمز کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ انفلوئنسرز نئی نسل کو آگے بڑھنے کے حوالے سے تجاویز دے بھی رہے ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
جنریشن زی کے لیے ملازمت میں تھوڑی سی آسانی اور بہت زیادہ مشکلات ہیں۔ ملازمت تنخواہ کی شکل میں ہر ماہ ایک لگی بندھی رقم تو ہاتھ میں تھمادیتی ہے تاہم اُس سے آگے نہیں دیکھا جاسکتا۔ فری لانسنگ اور سیلف ایمپلائمنٹ میں شخصیت کو پروان چڑھانے کی خاصی گنجائش ہوتی ہے۔ فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے اور زیادہ کمانے کی گنجائش بھی۔ ایسے میں انسان اگر زیادہ محنت نہ کرے تو ناکامی سے دوچار بھی ہوسکتا ہے۔ فری لانسنگ جنریشن زی کو آگے بڑھنے کی راہ دکھاتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ محنت کے ذریعے شخصیت کو پروان چڑھانے میں بھی کامیاب ہو پاتی ہے۔
Comments are closed on this story.