چیئرمین ایف بی آر کا کام صرف کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے کنٹینرز ٹریکنگ کے ٹھیکوں میں کرپشن پر ایف بی آر کے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین ایف بی آر کا کام صرف کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے؟ سرکاری اداروں کا یہ کام ہے کہ کرپٹ افسران کو بچانے کی کوشش کریں؟۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی عیسی فائز کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کنٹینرز ٹریکنگ کے ٹھیکوں میں کرپشن پر ایف بی آر کے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست پر سماعت کی۔
ایف بی آر افسران کیخلاف کارروائی کے حکم پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے پر سپریم کورٹ برہم ہوگئی۔
چیف جسٹس قاضی عیسی فائز نے ریمارکس دیے کہ کیا چیئرمین ایف بی آر کا کام صرف کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے؟ سرکاری اداروں کا یہ کام ہے کہ کرپٹ افسران کو بچانے کی کوشش کریں؟
کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایف بی آر کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ایف بی آر کے وکیل ہیں، جو عوام کے پیسوں پر پل رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر تمام کرپٹ لوگوں کو پالنا چاہتی ہے، چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرکے پوچھتے ہیں کیوں کرپٹ افسران کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی عیسی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کہا کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کریں، ایف بی آر ان کو بچانے آگیا، آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیئے؟ یہ غیر ضروری نظر ثانی درخواست دائر کی گئی جس پر حیرت ہے۔
سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی نظر ثانی کی درخواست مسترد کر دی اور عدالتی حکم نامے کی کاپی ایف بی آر بورڈ کے تمام ممبرز اور سیکریٹری خزانہ کو بھجوانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس کا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مدت میں تبدیلی کا عندیہ
عدالت کا کہنا تھا کہ آئندہ ایسی درخواستیں دائر نہ کی جائیں جس سے عدالتی وقت کا ضیاع ہو۔
یاد رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے کارگو کنٹینرز میں ٹریکنگ ڈیوائس لگانے کا ٹھیکہ منسوخ کردیا تھا جبکہ عدالت نے خلاف ضابطہ ٹھیکہ دینے اور کرپشن میں ملوث ایف بی آر افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
Comments are closed on this story.