کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے چوہدری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ طلب کرلیا جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے چوہدری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے بلڈر کے وکیل سے استفسار کیا کہ پلاٹ کی کمرشلائزیشن فیس کس کو ادا کی ہے، جس پر بلڈر کے وکیل کا کہنا تھاکہ پلاٹ کی کمرشلائزیشن فیس ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ کو دی ہے۔
عدالت نے سوال کیا کس کو پیسے کھلائے ہیں رسیدیں کہاں ہیں؟ بلڈر کے وکیل نے کہا کہ کے ایم سی اور دیگر کو پیسے دیے ہیں، رسیدیں پیش کرنے کی مہلت دی جائے، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بلڈر نے 22 منزلہ عمارت بنادی ہے مگر رسیدیں نہیں ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کراچی میں کیا کیا غیر قانونی ہورہا ہے ہمیں بھی سب پتہ ہے، لیاری ڈولمپنٹ اتھارٹی، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ یا کسی کو بھی پیسے دیے ہیں آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو رسیدیں دیکھائیں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چوہدری خلیق الزماں روڈ کمرشل نہیں ہوسکتا ہے، عدالت نے درخواست گزار کو بلڈنگ کی کمرشلائزیشن کی مد میں ادائیگی کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ، کے ایم سی اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت چوہدری خلیق الزماں روڈ کی کمرشلائزیشن سے متعلق ریکارڈ طلب کرلیا۔
سرکاری پلاٹ کی ملکیت کا تنازع: میئر کراچی سپریم کورٹ میں پیش
عدالت نے درخواست گزار کو بلڈنگ کی کمرشلائزیشن کی مد میں کی گئی ادائیگی کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کردی اور فریقین کو 25 اپریل کو مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
Comments are closed on this story.