ایران پر اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے مقام کی حملے سے قبل اور بعد کے مناظر
اسرائیل نے دو روز قبل ایران کی اصفہان ایئربیس کو نشانہ بنایا۔ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ حملے میں ایران کا قیمتی ترین میزائل دفاعی نظام تباہ کردیا گیا۔ اسرائیل نے حملے میں ریمباج میزائل کا استعمال کیا، یہ میزائل ایرانی ریڈار پر نہیں آیا۔ ایرانی نژاد برطانوی صحافی فرداد فرحزاد نے ”ایکس“ پر تصویر شیئر کی ہے جس میں ایران پر اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے مقام کی حملے سے قبل اور بعد کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز، فاکس نیوز اور دیگر غیر ملکی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا، حالانکہ یروشلم اس بارے میں خاموش ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع اور متعدد سیٹلائٹ تصاویر پوسٹوں نے ہفتے کو تصدیق کی ہے کہ، اصفہان میں ایران کا ایس-300 فضائی دفاع، جو اس کی اہم نطنز جوہری سائٹ کی حفاظت کرتا ہے، ایرانی فضائی حدود کے باہر سے داغے جانے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی نشاندہی کیے بغیر تباہ کر دیا گیا۔
العربیہ اردو کے مطابق اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے 19 اپریل کو ایرانی علاقے اصفہان پر حملے میں ریمباج میزائل کا استعمال کیا ہے۔ یہ میزائل اسرائیل کا تیار کردہ ہے اور اس کی رفتار آواز سے زیادہ ہے، یہ میزائل ایرانی ریڈار پر نہیں آیا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس میزائل کا فضائی دفاعی نظام سے پتہ لگانا مشکل ہے۔ اپنا راستہ درست کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے یہ کامیابی سے اپنے ہدف تک پہنچتا ہے۔ 450 کلومیٹرکی رینج والے اس میزائل میں 150 کلو گرام وزنی وار ہیڈ تھا۔
نیویارک ٹائمز اخبار نے بھی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے جس ہتھیار سے ایرانی نطنز نیوکلیئر سائٹ کے فضائی دفاع کو نشانہ بنایا اس میں ایسی ٹیکنالوجی موجود تھی جو اسے ایرانی ریڈار سے بچنے کے قابل بناتی تھی۔
اس حوالے سے ایک ایرانی نژاد برطانوی صحافی، ٹی وی پریزینٹر اور کاروباری شخصیت فرداد فرحزاد نے سماجی رابطے کی سائیٹ ”ایکس“ پر تصویر شیئر کی ہے۔ تصویر کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایران پر اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والے مقام کی حملے سے قبل اور بعد کے مناظر ہیں۔
مغربی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد ایران کو یہ پیغام دینا تھا کہ اسرائیل ایرانی دفاعی نظام کو مفلوج کرسکتا ہے۔
امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ اسرائیل شام اور عراق کی فضائی حدود میں طیاروں سے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے بغیر ایران کے اندر اہداف پر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
روبیو کے تبصرے اور غیر ملکی رپورٹس دونوں سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیلی ساختہ دو مرحلوں پر مشتمل میزائل کا پہلا مرحلہ عراق میں پایا گیا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اسے وہاں سے فائر کیا گیا ہو۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ میزائل ایران، اسرائیل یا اردن کی فضائی حدود سے فائر نہیں کیے گئے۔
Comments are closed on this story.