اندرونی اختلافات: پی ٹی آئی رہنماؤں کو احتجاجی تحریک ناکام ہونے کا خدشہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 8 فروری کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جارحانہ تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور اس کیلئے نے دو درجن سے زائد ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جاچکی ہے، لیکن مقامی انگریزی روزنامے نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں پائی جانے والی بے چینی اور مخالفت اس مہم کو متاثر کر سکتی ہے۔
مقامی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بہت سے اہم رہنماؤں کے جیل میں یا روپوش ہونے کی وجہ سے پارٹی کی صفوں میں عدم اطمینان موجود ہے، جس کی بنیادی وجہ موجودہ قیادت کی بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکامی ہے۔ پارٹی کے اندر یہ بھی شکایت کی جا رہی ہے کہ احتجاج کی منصوبہ بندی کے لیے نامزد 26 رکنی کمیٹی میں ”وفادار رہنماؤں“ کو نظر انداز کیا گیا، جب کہ تنظیم میں شامل بہت سے لوگ ”انڈر گراؤنڈ“ ہو چکے ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شوکت بسرا نے ان خدشات کو دور کرتے ہوئے تمام اراکین کو ”پارٹی کا اثاثہ“ قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی پنجاب میں 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد سے بڑی حد تک خاموش ہے۔ اس کے بعد کے 11 مہینوں میں پارٹی نے احتجاج کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے انہیں ناکام بنا دیا۔
اب، پارٹی دوبارہ دباؤ بنانے اور پنجاب میں اپنے قدم جمانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کیلئے 26 رکنی کمیٹی پنجاب بھر میں جلسوں کے انعقاد کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
کمیٹی میں حماد اظہر، عون عباس بپی، سیمابیہ طاہر، اعجاز منہاس، کنول شوزب، ریحانہ ڈار، مہر بانو قریشی، زرتاج گل، حافظ حامد رضا، مونس الٰہی، ریٹائرڈ میجر طاہر صادق، شیخ وقاص اکرم، ملک عامر ڈوگر، ایڈووکیٹ سلمان، اکرم راجہ، زلفی بخاری، زین قریشی، احمد چٹھہ، ملک احمد بچار، معین ریاض قریشی، میاں اسلم اقبال، شوکت بسرا، شبیر قریشی، رائے حسن نواز، مہر عبدالستار، شاداب جعفری اور زبیر نیازی شامل ہیں۔
مقامی اخبار کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کمیٹی کا حصہ بنائے گئے بہت سے نام ایسے ہیں جو حالیہ مہینوں کے دوران پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی طرف سے بلائے گئے ’احتجاج (خاص طور پر جو 2 اور 10 مارچ کو پنجاب میں منعقد ہوئے) سے دور رہے‘۔
خدشات کے باوجود کمیٹی نے اپنی پہلی میٹنگ آن لائن کی اور چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے پلیٹ فارم سے فیصل آباد میں جلسہ عام کے انعقاد پر اتفاق کیا۔ اجتماع کی صحیح تاریخ کا فیصلہ اتحادی رہنما بعد میں کریں گے۔
مقامی انگریزی اخبار کے ساتھ کی گئی گفتگو میں پارٹی کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے منصوبہ بند مظاہروں اور عوامی جلسوں کی کامیابی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا، کیونکہ ہجوم کو کھینچنے کے لیے کوئی ایسا رہنما موجود نہیں جس میں یہ صلاحیت موجود ہو۔
کمیٹی کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، کچھ رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی مرکزی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حماد اظہر نے ان حامیوں اور کارکنوں کو ”نظرانداز“ کیا جنہوں نے ماضی قریب میں احتجاجی مظاہرے کیے اور موجودہ پنجاب حکومت کے ”غصے کے سامنے کھڑے“ ہوئے۔
انہوں نے پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود حماد اظہر کی عوام کی نظروں سے غیر حاضری پر بھی سوال اٹھایا۔
پارٹی کے اندر سے ہونے والی تنقید کے بعد حماد اظہر نے سنٹرل پنجاب کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے بھی استعفا دے دیا تھا لیکن پی ٹی آئی کے بانی کی ہدایت پر اسے قبول نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے گزشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں کہا کہ بہت سے رہنما اور وکلاء جنہوں نے مال روڈ پر احتجاج کرنے کی جرات کی انہیں 26 رکنی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔
پارٹی کی بنیادی قیادت کے قید میں ہونے کے بعد، پی ٹی آئی کی صفوں میں یہ تاثر ہے کہ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت 8 فروری کو ووٹنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود پارٹی کو مضبوط کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مذکورہ مقامی اخبار نے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے ’تفصیلات حاصل کرنے کے بعد‘ اپنا ورژن دینے کا کہا اور اس کے بعد کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ شوکت بسرا نے کہا کہ ان کی پارٹی کے تقریباً ہر رکن کو احتجاج کے لیے باہر آنے پر پولیس کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔
کمیٹی کے ارکان کو ”پارٹی کا اثاثہ“ قرار دیتے ہوئے شوکت بسرا نے کہا کہ ایک پارٹی لیڈر کی جدوجہد کسی بھی طرح دوسرے سے کم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے وکلاء سمیت پارٹی کے کچھ رہنماؤں کو نظر انداز کیا گیا ہو لیکن وہ مختلف کمیٹیوں میں جگہ بنا لیں گے اور ہم ضمنی انتخابات کے بعد عوامی جدوجہد شروع کریں گے۔‘
Comments are closed on this story.