فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں ن لیگی کی وفاقی اور صوبائی حکومت میں اختلافات کا انکشاف
فیض آباد دھرنا کمیشن کے رپورٹ کے مزید مندرجات منظرِعام پر آگئے۔ کمیشن کی فائنڈنگ میں سینیر سطح پر کمزور کنٹرول دیکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق معاملات سے بہ طریقِ احسن نمٹنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ابتدائی طور پر کوتاہی سرزد ہوئی۔ اس معاملے میں وفاق اور پنجاب حکومت کے موقف میں بہت فرق تھا۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت فیض آباد دھرنے سے نمٹنے میں ابتدائی سطح پر ناکامی سے دوچار ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی نے پنجاب حکومت کو احتجاج پر قابو پانے کیلئے قائل کیا تاہم اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف نےاسلام آباد جانے کی اجازت دے دی کیونکہ حکومت پنجاب کا خیال تھا کہ زاہد حامد کے مستعفی ہونے سے معاملہ ختم ہوسکتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزرا کے پاس واضح اور متعین اختیارات نہیں تھے۔ مصطفیٰ امپیکس کیس سے وزیر اعظم کی ایگزیکٹو اتھارٹی مزید کمزور پڑگئی۔
رپورٹ کے مطابق جہاں بھی لفظ حکومت آتا ہے وہاں احکامات کے لیے کابینہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے یا فیصلے کمزور نکلتے ہیں۔
کمیشن نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو ریگیولیٹ کرنے کے لیے کرنے کا کوئی قانون نہیں۔ اس کے لیے ضروری قانون سازی کی جاسکتی ہے جس کے بعد قوائد و ضوابط طے کرکے اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر طے کیا جاسکتا ہے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ 2004 سے 2014 تک ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں، کوہاٹ، ہنگو، سوات، دیر، بونیر، شانگلہ، مردان، چارسدہ جیسے آپریشنل علاقوں میں خدمات انجام دینے والے تمام افراد کو مناسب انعام دیا جائے۔
Comments are closed on this story.